اسلام آباد،واشنگٹن (آن لائن،آئی این پی ) امریکہ نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے وزارت خارجہ میں اردو ترجمان کی سپیشل تقرری کردی، حال ہی میں تعینات ہونے والی اردو ترجمان ہیلینا وائٹ کا کہنا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دیتا ہے ، لہذا اردو ترجمان کا ہونا بہت ضروری ہے، امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کا رشتہ 70سال کا ہے، ہیلینا وائٹ کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ
امریکی پالیسی پاکستان پر واضع کرنا ضروری ہے، چونکہ اردو بولنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لہذا امریکی وزارت خارجہ میں اردو ترجمان کی تعیناتی اشد ضروری تھی۔ ہیلینا وائٹ کو پہلی اردو ترجمان کی تقرری کا شرف حاصل ہوا ہے، انہوں نے کہا کہ میرا یہ شوق تھا اور میں گزشتہ ایک عرصہ سے اردو زبان سیکھ رہی تھی تاکہ اردو جاننے والوں کے ساتھ بہتر انداز میں بات چیت کرسکوں۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آج یہ خواب پورا ہوگیا ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نوجوانی سے اردو زبان، شاعری او ر ثقافت کی طالب علم رہی ہوں۔ گفتگو کی وجہ سے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتر ی آئے گی او ر ایکدوسرے کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔امریکی وزارت خارجہ میں اردوترجمان کا تعینات ہونا ایک مثال ہے کیونکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ اہمیت کے حامل ہیں۔دریں اثناامریکہ کے معاون نائب وزیرِ خارجہ برائے سیاسی امور تھامس شینن نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کے بلا اجازت سفر پر پابندی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے یہ پابندی پاکستان کی جانب سے امریکی سفارت کاروں کی بلا اجازت نقل و حرکت پر عائد پابندی کے جواب میں لگائی ہے، سفارت کاری میں اس طرح کے اقدامات معمول کی بات ہیں۔
امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان افغانستان کی صورتِ حال پر نتیجہ خیز بات چیت ہوئی ہے امید ہے کہ یہ بات چیت افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں معاونثابت ہوگی، افغانستان میں جاری لڑائی کے مقابلے کے لیے پاکستان سے تعاون طلب کرنا کہیں مشکل ہے لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا کہیں زیادہ آسان ہے، پاکستان کو دہشت گردی سے متعلق وسطی ایشیائی ممالک کے تحفظات سمجھنا ہوں گے۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو میں تھامس شینن نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کی بلااجازت نقل و حرکت محدود کرنے کی تصدیق کی ۔انکا کہنا تھاکہ امریکہ نے یہ پابندی پاکستان کی جانب سے امریکی سفارت کاروں کی بلا اجازت نقل و حرکت پر عائد پابندی کے جواب میں لگائی ہے۔ امریکی نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ سفارت کاری میں اس طرح کے اقدامات معمول کی بات ہیں۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تعینات امریکی
سفارت کاروں کو اپنے مقام سیدور سفر کرنے سے قبل پاکستان کی حکومت کو مطلع کرنا پڑتا ہے جس کے جواب میں امریکہ نے بھی اپنے ہاں تعینات پاکستانی سفارت کاروں کا اس کا پابند کیا ہے کہ وہ بغیر بتائے سفر نہ کریں۔افغانستان میں پاکستان کے کردار سے متعلق ایک سوال پرتھامس شینن کا کہنا تھا کہ امریکی اور پاکستانی حکام کے درمیان افغانستان کی صورتِ حال پر نتیجہ خیز بات چیت ہوئی ہے اور ان کے بقول انہیں امید ہے کہ یہ بات چیت
افغانستان میں جاری مفاہمتی عمل میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جاری لڑائی کے مقابلے کے لیے پاکستان سے تعاون طلب کرنا کہیں مشکل ہے لیکن اس کے مقابلے میں افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا کہیں زیادہ آسان ہے۔ایک سوال پر امریکی معاون نائب وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی سے متعلق وسطی ایشیائی ممالک کے تحفظات سمجھنا ہوں گے۔
لیکن ان کے بقول اس کا بہتر راستہ یہ ہے کہ افغانستان میں ایک ایسا وسیع تر مفاہمتی عمل شروع کیا جائے جس میں پاکستان ایک بامعنی اور اہم کردار ادا کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایسے مفاہمتی عمل ہی کے نتیجے میں پاکستان کو پڑوسی ملکوں اور وسطی ایشیائی ملکوں کے ساتھ بات چیت کے مواقع میسر آئیں گے جن کے ذریعے باہمی خدشات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔امریکی معاون وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں ‘کابل امن عمل’ کے سلسلے میں ازبکستان میں ہونے والی کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے اسے انتہائی خوش آئند قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان اس نوعیت کے رابطے افغانستان میں امن کے حصول میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔