میاں نواز شریف نے آج سے ملک میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی تحریک شروع کر دی‘ ووٹ کو واقعی عزت ملنی چاہیے لیکن ووٹ سے پہلے اس ووٹر کو عزت ملنی چاہیے جس کی وجہ سے آئین‘ پارلیمنٹ اور حکومت بنتی ہے‘ ووٹرز تو بے چارے آج بھی ملک میں عزت تلاش کر ر ہے ہیں‘ انہیں اس ملک میں پانی ملا ہے‘ علاج ملا ہے‘ تعلیم ملی ہے‘ انصاف ملا ہے اور نہ ہی عزت ملی ہے‘ ہمارے ملک میں سب کی عزت ہے‘ سب کا استحقاق ہے‘
یہاں سیاسی قائدین سو سو مقدموں کے باوجود باعزت ہیں‘ آئین کا آرٹیکل 68 عدلیہ کی عزت کا ضامن ہے‘ پارلیمنٹ کچھ بھی کر لے یا سرے سے کچھ نہ کرے یہ بھی باعزت ہے اور فوج اور بیورو کریسی کی عزت ملک ٹوٹنے‘ برباد ہونے کے باوجود بھی محفوظ ہے‘ اگر اس ملک میں عزت نہیں ہے تو ووٹرز کی عزت نہیں ہے‘ ان کا مقدر صرف اور صرف بے عزت ہونا ہے۔ میاں نواز شریف ملک میں ووٹ کی عزت تلاش کرنے سے پہلے صرف ایک سوال کا جواب دے دیں‘ پانچ برسوں میں قومی اسمبلی کے 468 اجلاس ہوئے‘ آپ صرف 44 اجلاسوں میں شریک ہوئے‘ کیا یہ ہے آپ کی نظر میں اس ووٹ اور اس ووٹ سے بننے والی اسمبلی کی عزت جسے آپ آج عزت دلانا چاہتے ہیں‘میاں صاحب آپ کی نظر میں اگر ووٹ اور ٹشو پیپر میں کوئی فرق ہوتا تو آج آپ عزت دو کا مطالبہ نہ کر رہے ہوتے‘ آج سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے کل کے فیصلے کی تشریح کر دی‘ چیف جسٹس نے فرمایا ، لاہور ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف اور مریم نواز کی تقریروں پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی‘ میڈیا نے یہ خبر غلط رپورٹ کی‘ سپریم کورٹ کی اس وضاحت کے باوجود آج میڈیا نے میاں نواز شریف کی تقریر کو لائیو سنسر کیا‘ یہ جہاں بھی عدلیہ کا نام لیتے تھے وہاں بیپ لگا دی جاتی تھی‘ کیا ہم اسے فریڈم آف ایکسپریشن کہہ سکتے ہیں‘ میڈیا اور پیمرا کیسے اندازہ کرے گا کون سا مٹیریل عدلیہ مخالف ہے اور کون سا عدلیہ دوست اور میاں نواز شریف ان حالات میں بھی کہہ رہے ہیں، آپ جتنی چاہیں میری زبان بندی کر لیں جیت ہماری ہو گی۔ میاں صاحب کی جیت کیسے ہو گی‘ یہ نقطے ہمارے آج کے پروگرام کا ایشو ہوں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔