تہران(نیوز ڈیسک) ایرانی کرنسی ریال کی غیر ملکی کرنسیوں کے ساتھ شرح تبادلہ کے حوالے سے قدر و قیمت اپنی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی، جس کے بعد ایرانی حکومت نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پورے ملک میں ایک ہی شرح تبادلہ نافذ کر دی ۔ایرانی میڈیا کے مطابق اس پیش رفت کے بعد ایرانی حکومت نے ملک میں سرکاری ریگولیشن کے دائرہ کار سے باہر کرنسی کا ہر طرح کا کاروبار ممنوع قرار دے دیا ہے اور ساتھ ہی ایک ایسی سرکاری شرح تبادلہ بھی طے کر دی ہے،
جس کے تحت ملک میں ریال اور ڈالر کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا جائے گا۔ایران کے سرکاری ٹیلی وڑن نے ملک کے سینئر نائب صدر اسحاق جہانگیری کے حوالے سے بتایا کہ ایرانی ریال کی امریکی ڈالر کے ساتھ سرکاری شرح تبادلہ 42,000 ریال فی ڈالر مقرر کی گئی ہے، اور یہ فیصلہ فوری طور پر نافذالعمل بھی ہو گیا ہے۔ساتھ ہی ایران کے سینئر نائب صدر جہانگیری نے یہ بھی کہا کہ ملک میں جس کسی بھی سرکاری یا نجی کاروباری ادارے نے اس شرح تبادلہ سے ہٹ کر کرنسی کا کاروبار کیا، اسے اسمگلنگ سمجھا جائے گا اور متعلقہ افراد یا اداروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ سرکاری طور پر ایک امریکی ڈالر کی قیمت 42 ہزار ریال مقرر کیے جانے کے بعد تہران میں مرکزی ایکسچینج آفس کے باہر ایسے مقامی شہریوں کی لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں، جو آئندہ دنوں کے دوران ریال کی قدر میں مزید کمی کے خوف سے حکومت کے طے کردہ ریٹ پر امریکی ڈالر خریدنا چاہتے تھے۔ اس دوران کئی ایرانی شہریوں نے یہ شکایت بھی کی کہ مارکیٹ میں امریکی ڈالر کافی مقدار میں تھے ہی نہیں کہ وہ سرکاری ریٹ پر یہ غیر ملکی کرنسی خرید سکتے۔تہران حکومت کے ایک ترجمان محمد باقر نوبخت نے بتایا کہ 2015ء میں ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بین الاقوامی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے بعد سے ایرانی تیل اور گیس کی جو برآمدات بحال ہو چکی ہیں، زیادہ تر انہی کی وجہ سے ایران کو سالانہ قریب 95 بلین ڈالر کے برابر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ایران قریب 80 بلین ڈالر سالانہ اپنے ہاں غیر ملکی مصنوعات کی درآمد پر بھی خرچ کر دیتا ہے۔