اتوار‬‮ ، 17 اگست‬‮ 2025 

مرضی کے فیصلے نہیں کرتے بلکہ آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں، چیف جسٹس

datetime 11  اپریل‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

کوئٹہ (آئی این پی) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ مرضی کے فیصلے نہیں کرتے‘ آئین و قانون کے مطابق چلتے ہیں‘ عدلیہ بھرپور انداز میں اپنا کام کررہی ہے جس پر فخر ہے‘ قانون میں سقم رہ گیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہے‘ ہم کوئی معمولی قاضی نہیں ہیں ‘ قوم کا مستقبل ہمیں بھی دیکھنا ہے‘ انصاف نہیں کرینگے تو اپنے مستقبل کے خود ذمہ دار ہوں گے‘ ہم قانون سازی نہیں کرسکتے ۔

لیکن قانون پر عمل ضرور کراسکتے ہیں‘ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری ہم سب پر ہے ‘ جانتے ہیں کہ عدلیہ کے پاس وسائل ناکافی نہیں اور حکومت کی جانب سے بھی تعاون نہیں کیا جارہا۔ بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ناانصافی پر مشتمل معاشرہ نہیں چل سکتا۔ شدت سے محسوس کررہا ہوں کہ ہم صلاحیت استعمال نہیں کررہے ہم وہ جج ہیں جو صرف قانون کے تحت فیصلے کرتے ہیں۔ فریق جانتے ہوں یا نہیں‘ انصاف کی فراہمی جج کا کام ہے مرضی کے فیصلے نہیں کرتے آئین اور قانون کے مطابق چلتے ہیں۔ کوئی بھی فیصلہ دینے کے لئے قانون و آئین کا مکمل پتہ ہونا چہائے ہم کوئی معمولی قاضی نہیں قوم کا مستقبل ہمیں بھی دیکھنا ہے۔ آپ لوگ جوڈیشل نظام کے بنیادی ستون ہیں حیران ہوں ہمارے قابل ججز کہاں چلے گئے ہیں۔ ایسے ججز ہوتے تھے جو فیصلے لکھتے لیکن اس میں کٹنگ نہیں ہوتی تھی۔ سیشن جج بھی فیصلہ لکھتا تھا تو سپریم کورٹ اسے برقرار رکھتی۔ کسی بھی معاشرے میں انصاف کا ہونا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ لگ رہا ہے ہم اس جذبے کے ساتھ انصاف نہیں کررہے۔ انصاف نہیں کرینگے تو اپنے مستقبل کے ذمہ دار خود ہونگے۔ انصاف دینا ہم پر قرض ہے اور کوئی بھی قرض نہ دیکر جانا نہیں چاہتا۔ ہم قانون سزی نہیں کرسکتے لیکن قانون پر عمل ضرور کراسکتے ہیں جو قانون بنائے گئے ہیں ہمیں ان پر ہی عمل کرانا ہے۔

یہ درستہے کہ لوگ تیس چالیس سال مقدمہ بازی میں لگے رہتے ہیں مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری ہم سب پر ہے جو شخص انصاف کیلئے لڑرہا ہے فیصلے میں تاخیر کا ذمہ دار کوں ہوگا جانتے ہیں ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اور حکومت کی جانب سے بھی ویسا تعاون نہیں مل رہا۔ ہم نے اپنے گھر کو ٹھیک نہیں کیا تو اﷲ کے سامنے کیا جواب دیں گے۔

قانون میں سقم رہ گیا تو اس کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنے گھر کو ان ہائوس لانا ہے۔ سمجھ نہیں آتی ایک سول مقدمے میں چار چار سال کیسے لگتے ہیں مانتا ہوں ہمارے پاس انگریز دور کے قانون تبدیل کرنے کا حق نہیں ہے جو قانون موجود ہیں ان میں رہتے ہوئے بہترین ا نصاف فراہم کریں۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ ہماری عدلیہ کرپٹ ہے عدلیہ بھر انداز میں اپنا کام کررہی ہے جس پر فخر ہے۔

موضوعات:



کالم



وین لو۔۔ژی تھرون


وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…