اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)چوہدری شجاعت حسین کی کتاب’’سچ تو یہ ہے‘‘شائع کی جا چکی ہے ۔ مسلم لیگ قائداعظم کے سربراہ نے اپنی کتاب میں تہلکہ خیز انکشافات کئے ہیں۔ مشرف دور میں حکمران جماعت مسلم لیگ قائداعظم کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لال مسجد آپریشن کے حوالے سے بھی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔ لال مسجد آپریشن سے متعلق کہا جاتا ہے
کہ اس آپریشن کی کمان پاک فوج کے لیفٹننٹ کرنل ہارون الاسلام کے سپرد کی گئی تھی جو نہ صرف بذات خود لال مسجد اور جامعہ حفضہ کے اندربھیس بدل کر جاسوسی کرتے رہے بلکہ وہ ایک طرف براہ راست اس وقت کے صدر جنرل (ر)پرویز مشرف کے ساتھ بھی رابطے میں تھے اور لال مسجد کے نائب خطیب غازی عبدالرشید کے ساتھ بھی رابطے میں تھے۔ چوہدری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں ایوان صدر میں ہونے والی ایک میٹنگ کا تذکرہ بھی کیا ہے اس میں لال مسجد آپریشن میں شہید ہونے والے لیفٹیننٹ ہارون الاسلام سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ایوان صدر میں اس وقت لال مسجد کے حوالے سےا یک انتہائی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی تھی جس میں اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے لال مسجد کے آپریشن کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل ہارون الاسلام کو بریفنگ کیلئے بھی طلب کیا ۔ شہید لیفٹیننٹ ہارون الاسلام پاک فوج کی سپیشل سروسز ایس ایس جی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ آپ انتہائی قابل افسر تھے، لیفٹیننٹ کرنل ہارون الاسلام نے پاک فوج میں رہتے ہوئے کئی کارنامے سر انجام دئیے اور یہی وجہ تھی کہ آپ کو اس آپریشن کی کمانڈ سونپی گئی ۔ لال مسجد انتظامیہ اس وقت چلڈرن لائبریری پر قبضہ کر چکی تھی جبکہ قریب واقع آبپارہ مارکیٹ میں سی ڈیز کی دکانوں پربھی جا کر دکانداروں کو یہ کاروبار کرنے کی تنبیہہ کر چکی تھی۔ جامعہ حفضہ اور لال مسجد کے طلبا نے
اسی دوران چائنیز کو بھی اغوا کر کے لال مسجد میں انہیں قیدی بنا لیا تھا۔ حالات انتہائی کشیدہ ہو چکے تھے، لیفٹیننٹ ہارون الاسلام لال مسجد اور جامعہ حفضہ کا تصفیہ پرامن طریقے سے حل کرنے کے خواہاں تھے اور اس بات کا ثبوت 2013میں عبدالرشید غازی قتل کیس میں چار گواہوں کی پولیس کو دئیے گئے بیانات سے ملتا ہے۔28اکتوبر 2013کو آئی این پی نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے
مطابق پو لیس کو بطور گواہ بیانات ریکارڈ کروانے والوں میں شہداءفاؤنڈیشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حبیب الرحمٰن فاروقی،ترجمان شہداءفاؤنڈیشن آف پاکستان حافظ احتشام احمد،ممبر بورڈآف ٹرسٹیز شہداءفاؤنڈیشن فضل الرحمٰن صدیقی،علامہ عبدالرشید غازی شہید کی ہمشیرہ بنت عبداللہ اور لال مسجد میں شہید ہونے والے حافظ شہزاد قریشی کے بھائی شہباز قریشی شامل ہیں۔
اتوار کو شہداءفاؤنڈیشن آف پاکستان کے بیان کے مطابق جنرل سیکریٹری حبیب الرحمٰن فاروقی نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ ”5جولائی2007بروز جمعرات کو میں اپنے بھتیجے حافظ شعیب شہید کو لال مسجد سے نکالنے کی کوشش میں کنونشن سینٹر سائیڈ ایمبیسی روڈ سے ہوتا ہوا PARCچوک ناکوں پر فورسز کے ہاں انٹری کرانے کے بعد سرنڈر پوائنٹ کورڈ مارکیٹ پہنچ گیا۔
سرنڈر پوائنٹ پر میری ملاقات کیپٹن آصف سے ہوئی ۔جس کا فون نمبر 03465542733ہے جو وہاں رینجرز کی کمانڈ کررہا تھا۔کیپٹن آصف نے مجھے دیکھتے ہی اونچی آواز میں پرویزمشرف کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ”قاری صاحب!پرویزمشرف مولانا عبدالرشید غازی کو مارنے کا آرڈر کرچکا ہے۔آپ عبدالرشید غازی کو کہیں کہ وہ سرنڈر کرے اور گرفتاری دے دیں تاکہ اس کی جان بچ جائے۔
جس پر میں نے اسے کہا کہ علماءکے اجلاس میں آپ کی آواز پہنچاؤں گا“۔شہداءفاؤنڈیشن کے ترجمان حافظ احتشام احمد نے پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا ہے کہ ”لال مسجد آپریشن کے آپریشنل کمانڈر کرنل ہارون الاسلام کا علامہ عبدالرشید غازی شہید سے براہ راست ٹیلی فون پر رابطہ تھا اور کرنل ہارون الاسلام نے علامہ عبدالرشید غازی شہید سے کہا تھا کہ پرویزمشرف آپ سب کو مارنا چاہتا ہے
مگر میں بات چیت کے ذریعے مسئلے کا حل نکالنا چاہتا ہوں،یہاں پرویزمشرف کا حکم نہیں چلے گا بلکہ میرا چلے گا،آپ مجھ سے رابطہ رکھیں،آپ بھی اندر والوں کو گولی چلانے سے روکیں اور میں بھی باہر والوں کو روکتا ہوں،اسی اثنا میں کرنل ہارون الاسلام کو شہید کردیا گیا“۔حافظ احتشام احمد نے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں طارق عظیم پر بھی آپریشن میں معاونت کرنے کے
حوالے سے سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ہارون الرشید غازی کے ایک اور گواہ شہباز قریشی نے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”میری کرنل ہارون الاسلام سے ملاقات ہوئی تھی،انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ باہر سے جو گولیاں چل رہی ہے اس میں میری مرضی شامل نہیں“۔شہبازقریشی نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ”جب 9جولائی کی رات معاہدہ طے پاگیا تھا تواسی
وقت موقع پر موجود اہلکاروں نے کہہ دیا تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے،پرویزمشرف آپریشن کا حکم دے چکا ہے“۔ ہارون الرشید غازی کے ایک اور گواہ فضل الرحمٰن صدیقی نے اپنے بیان میں پولیس کو بتایا ہے کہ لال مسجد آپریشن کے دوران فاسفورس بم کا استعمال کیا گیا ہے،میں نے خود ایسی لاشیں دیکھیں جو فاسفورس کے استعمال کی وجہ سے پگھل گئی تھیں“۔