کوئٹہ(آئی این پی ) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما کے تبادلے اور تعلیم سے متعلق پالیسی بنا کر 15 دن میں رپورٹ د ینے کا حکم دیتے ہوئے صحت اور تعلیم کے شعبوں میں عدم سہولیات پر متعلقہ سیکرٹریز کی سرزنش کی اور اپنے ریمارکس میں کہا کہ ڈاکٹرز کو 24 ہزار اور سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے،جس سے پوچھوں وہ دوسرے پر ڈال دیتا ہے،تعلیم اور صحت کے شعبے
میں کوئی سیاست قبول نہیں کی جائے گی، بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا،میں تو سمجھتا تھا کہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں۔ منگل کو سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس منصور علی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے تعلیم، صحت اور پانی کی صورتحال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔چیف سیکریٹریز سمیت دیگر اعلی حکام سماعت کے دوران عدالت میں موجود رہے تاہم عدالت کی جانب سے طلب کیے جانے کے باوجود سابق وزرائے اعلی ثنااللہ زہری اور ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ پیش نہ ہوئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سابق وزرائے اعلی کہاں ہیں جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ڈاکٹر عبدالمالک کی جانب سے ان کے وکیل عدالت میں موجود ہیں۔تاخیر سے پہنچنے پر چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت صالح ناصر سے کہا کہ آپ کس صوبے سے آئے ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ میرا تعلق بلوچستان سے ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر صوبے کے لئے کام کریں، اسپتالوں کی حالت دیکھی ہے آپ نے ۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں، سول اسپتال میں ایک بھی ایم آر آئی مشین نہیں ہے۔
ینگ ڈاکٹرز کے حوالے سے سیکرٹری صحت نے عدالت کو بتایا کہ ہا ئو س جاب کرنے والے ڈاکٹروں کو ہر ماہ وظیفہ دیا جاتا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ڈاکٹرز کو 24 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں، سپریم کورٹ کا ڈرائیور 35 ہزار تنخواہ لے رہا ہے۔چیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ڈاکٹرز کی تنخواہ ادا نہیں ہوتی، آپ کی تنخواہ بند ہے۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران کہا
کہ اسپتالوں میں آلات بہتر رکھیں اور ان کی حالت بہتر بنائیں۔چیف جسٹس نے سیکرٹری تعلیم سے استفسار کیا کہ صوبے کے دور دراز علاقوں کے اسکولوں کی حالت کے بارے میں بتائیں۔ سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے مکمل پلان ترتیب دیا ہے جسے کابینہ سے منظور کرایا جائے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیشہ یہی پوچھتا ہوں کہ کون تیار کرے گا آپ کا تین سالہ پلان، پانی اور واش روم بننے میں کتنا عرصہ لگ جائے گا۔
جس پر چیف سیکرٹری نے کہا کہ تین سال میں 11 ہزار اسکولوں میں واش روم بنا دیں گے، گزشتہ تین سال میں چار لاکھ بچوں کو داخلے دلوائے گئے۔سیکرٹری تعلیم نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کے زیر انتظام ایک ہزار 135 پرائمری اسکول ہیں جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا ان اسکولوں میں ساری سہولیات ہیں جس پر انہوں نے بتایا کہ نہیں ایسا نہیں ہے، 50 فیصد اسکولوں میں پانی نہیں، یہی شرح مڈل اور ہائی اسکولوں میں ہے۔سیکرٹری تعلیم
نے کہا کہ صوبے میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال خراب ہے لیکن اتنی بھی نہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی بہترین اسکول میں آپ مجھے لے جائیں۔چیف سیکرٹری نے کہا کہ خضدار کے علاقے کٹھان میں ماڈل اسکول ہے ، شہر میں اسکولوں کا مسئلہ نہیں، خرابی میں اساتذہ بنیادی وجہ ہیں، ہمارے اساتذہ دلچسپی نہیں لے رہے، ٹیچرز پولیٹیکل ونگ بن گئے ہیں۔سیکرٹری تعلیم نے کہا کہ مجھے اساتذہ کی ایسوسی ایشن سیکوئی تعاون نہیں مل رہا،
صوبے میں جے وی ٹیچر 20 گریڈ تک پہنچ جاتا ہے لیکن کارکردگی صفر ہے جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تعلیم سے متعلق پالیسی بنا کر 15 دن میں رپورٹ دی جائے۔گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے رہنما مجیب اللہ غرشین نے سماعت کے دوران کہا کہ ہم غیر حاضر اساتذہ کے حق میں نہیں لیکن یہاں جونیئر سینیئر کی جگہ آجاتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت سیاسی مداخلت ختم نہیں کر رہی جس سے معاملہ بگڑ رہا ہے،
اس موقع پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جس سے پوچھوں وہ دوسرے پر ڈال دیتا ہے۔چیف جسٹس نے مجیب اللہ غرشین کو خضدار تبادلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جا کر بچوں کو پڑھا ئو ، لیڈری مت کرو، تعلیم اور صحت کے شعبے میں کوئی سیاست قبول نہیں کی جائے گی، ایسا نہ ہو سپریم کورٹ صحت اور تعلیم میں ٹریڈ یونین پر پابندی لگا دے۔چیف سیکرٹری سے مکالمے کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ
این ایف سی ایوارڈ کے سب سے زیادہ پیسے آپ کو ملے، بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے کے پیسے کون کھا گیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبے میں کوئی گورننس نہیں ہے اور پینڈورا باکس بنا ہوا ہے، میں تو سمجھتا تھا کہ سندھ کی صورتحال ابتر ہے لیکن یہاں تو کوئی حالت ہی نہیں ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا پانی کے حوالے سے رپورٹ مکمل کرلی ہے’ جس پر ایڈووکیٹ جنرل رف عطا نے بتایا کہ کابینہ کا اجلاس ہوا ہے، ایک ہفتے میں رپورٹ مکمل کرلی جائے گی۔چیف جسٹس نے حکم دیا کہ پالیسی تیار کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے۔