واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے امریکہ کے حالیہ دورہ کے موقع پر انتہائی پرتپاک استقبال کیا گیا، اس استقبال کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تعلقات انتہائی خوشگوار ہو چکے ہیں، لیکن اب ایک امریکی عدالت نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس سے دونوں ممالک کے تعلقات بگڑ بھی سکتے ہیں۔
امریکی عدالتوں میں نائن الیون دہشتگردی کے متاثرین کی جانب سے سعودی عرب کے خلاف مقدمہ قائم کرنے کی درخواستیں کئی سال سے زیر سماعت تھیں۔ سعودی عرب نے اپنی بھرپور کوشش کی کہ امریکہ کی عدالتیں اس کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہ کریں، مگر امریکہ کے ایک جج نے فیصلہ سنایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کو بہرصورت نائن الیون دہشتگردی میں سہولت کاری اور متاثرین کو اربوں ڈالر ہرجانے کی ادائیگی سے متعلقہ مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کا کہنا ہے کہ امریکی ڈسٹرکٹ جج جارج ڈینیلز کا کہنا تھا کہ جسٹس اگینسٹ سپانسر ز آف ٹیرر ازم ایکٹ 2016ء کے تحت وہ ان کیسز کی سماعت کر سکتے ہیں۔ شروع دن سے سعودی عرب کا موقف یہ رہا ہے کہ نائن الیون کی دہشت گردی سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔نائن الیون کو دہشتگردی کے اس واقعے میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی عمارت سے دو طیارے ٹکرائے جبکہ امریکی محکمہ دفاع کے ہیڈکوارٹر پینٹا گان پر بھی حملہ ہوا اور ایک طیارہ ریاست پنسلوانیا میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس واقعہ میں تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ امریکہ کی عدالت کے فیصلے کا اطلاق نائن الیون میں ہلاک ہونے والے تقریباً تین ہزار افراد اور 25 ہزار سے زائد زخمی ہونے والے افراد کے دعوؤں پر ہوگا، اس کے علاوہ متعدد کاروباری و انشورنس کمپنیوں نے بھی سعودی عرب کی حکومت کے خلاف دعوے دائر کیے ہوئے ہیں۔ اس فیصلے پر سعودی عرب کے وکیلوں کا ابھی تک کوئی موقف نہیں آیا۔