منگل‬‮ ، 19 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

ایگزیکٹ سکینڈل میں شعیب شیخ کو ضمانت پر رہا کرنے کے جج نے کتنے کروڑ روپے لیے، برطرف جج پرویز قادر میمن نے اعترافی بیان میں کیا حیران کن جواب دیا؟

datetime 1  مارچ‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سینئر صحافی و کالم نویس جاوید چودھری نے اپنے کالم میں ایگزیکٹ سکینڈل کے بارے میں لکھا کہ امریکی صحافی ڈیکلین والش نے 17 مئی 2015ء کو نیویارک ٹائمز میں ایک تہلکہ خیز اسٹوری دی‘ یہ اسٹوری بعد ازاں ’’ایگزیکٹ اسکینڈل‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی‘ ایگزیکٹ کراچی کی ایک آئی ٹی کمپنی تھی‘ یہ کمپنی شعیب شیخ نے 1997ء میں بنائی تھی‘ مالکان کا دعویٰ تھا یہ دنیا کی لیڈنگ سافٹ ویئر کمپنی ہے۔کاروبار 120 ملکوں کے 1300 شہروں میں پھیلا ہوا ہے‘

25 ہزار ملازمین ہیں‘ دس کاروباری یونٹ ہیں اور دو ارب لوگ ہماری سروسز استعمال کرتے ہیں لیکن ڈیکلین والش کی اسٹوری کے بعد پتہ چلا ایگزیکٹ نے کراچی میں 330 جعلی امریکی یونیورسٹیوں کی ویب سائیٹس بنا رکھی ہیں‘ ویب سائیٹس پر امریکا کے ٹیلی فون نمبر تھے۔دنیا بھر کے طالب علم امریکا میں فون کرتے تھے اور وہ فون کراچی میں شعیب شیخ کے دفتروں میں آ ملتا تھا‘ کلائنٹ امریکا کے بینکوں میں رقم جمع کراتے تھے اور وہ پیسہ مختلف چینلز سے ہوتا ہوا پاکستان پہنچ جاتا تھا‘ شعیب شیخ نے اس دھندے سے اربوں روپے کمائے‘ یہ آخر میں اپنے غیر قانونی کاروبار کو بچانے کے لیے میڈیا ایمپائر بنا رہے تھے لیکن یہ اس سے پہلے پکڑے گئے اور ان کا سارا محل تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ایف آئی اے ایکٹو ہوئی‘ چھاپے پڑے‘ دفاتر سیل ہوئے‘ ملازمین گرفتار ہوئے‘ ہیڈ کوارٹر کے سامنے موجود عمارت سے ہزاروں کی تعداد میں جعلی ڈگریاں اور طالب علموں کے کارڈز برآمد ہوئے اور دفتر سے ڈگریاں حاصل کرنے والے اسٹوڈنٹس کا ڈیٹا اور سی ڈیز بھی مل گئیں‘ثبوت پورے ہو گئے‘ ایف آئی اے نے اس مواد کی بنیاد پر شعیب شیخ کے خلاف کراچی میں دو اور اسلام آباد میں ایک مقدمہ قائم کر دیا‘ کیس عدالتوں میں چلنے لگا‘ 15 اگست 2016ء کو سندھ ہائی کورٹ نے شعیب شیخ کو ضمانت پر رہا کر دیا۔اسلام آباد کا مقدمہ چلتا رہا‘

یہ مقدمہ ایڈیشنل سیشن جج پرویز قادر میمن کی عدالت میں زیر سماعت تھا‘ پرویز قادر میمن حیدر آباد کی میمن فیملی سے تعلق رکھتے ہیں‘ اسلام آباد کے وکلاء اور ججز میں ان کی شہرت اچھی تھی‘ یہ وکیلوں اور سائلوں دونوں کے ساتھ تہذیب اور شائستگی کے ساتھ پیش آتے تھے‘ یہ ایماندار اور اہل بھی مشہور تھے‘ پرویز قادر میمن نے 31 اکتوبر 2016ء کو مقدمے کے مرکزی ملزم شعیب شیخ اور وقاص عتیق سمیت 25 لوگوں کو بری کر دیا‘کہانی کا پہلا باب یہاں ختم ہوگیا‘ دوسرا باب مئی 2017ء میں شروع ہوا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ کے مشہور جج ہیں‘ جسٹس صاحب کو اطلاع ملی پرویز قادر نے شعیب شیخ کے کیس میں چار کروڑ روپے رشوت لی تھی‘ جسٹس صاحب نے سیشن جج تنویر میر کو انکوائری کا حکم دیا‘ سیشن جج نے خفیہ انکوائری کے بعد الزام کی تصدیق کر دی‘ جسٹس شوکت صدیقی نے مئی 2017ء میں پرویز قادر کو چیمبر میں بلا لیا‘ پرویزقادر نے کلمہ پڑھا‘ قسمیں کھائیں اور الزام سے صاف انکار کر دیا۔جسٹس شوکت صدیقی نے انھیں چند دن سوچنے کا وقت دے دیا‘

جون 2017ء میں اسلام آباد کے ماتحت ججوں کی پروموشن کا وقت آ گیا‘ ہائی کورٹ کے دو ججز جسٹس شوکت صدیقی اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی پروموشن کمیٹی بن گئی‘ کمیٹی کو دو ایڈیشنل سیشن ججز پر تحفظات تھے۔دونوں کو انٹرویوز کے لیے بلا لیا گیا‘ پرویز قادر میمن بھی ان میں شامل تھے‘ پرویز قادر کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے‘ رجسٹرار ہائی کورٹ راجہ جواد عباس بھی وہاں موجود تھے‘ کمیٹی نے پرویز قادر سے پوچھا’’آپ پر ایگزیکٹ کیس میں چار کروڑ روپے رشوت لینے کا الزام ہے‘‘

پرویز قادر نے انکار کر دیا‘ کمیٹی نے ان کے فون کا ریکارڈ ان کے سامنے رکھ دیا‘ پرویز قادر نے اسلام آباد کی ایک طاقتور شخصیت سے دو درجن مرتبہ بات کی تھی۔ان سے پوچھا گیا ’’آپ کا ان کے ساتھ کیا تعلق ہے‘‘ پرویز قادر نے جواب دیا ’’یہ مجھے ایک کام کے سلسلے میں فون کرتے تھے‘‘ ان سے کام کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ کام شعیب شیخ کی رہائی نکلا‘ اگلا سوال تھا ’’کیا آپ نے چار کروڑ روپے لیے تھے‘‘ پرویز قادر کا جواب تھا ’’سر وہ بکواس کر رہے ہیں‘ وہ بے ایمان لوگ ہیں‘

مجھے انھوں نے صرف 50 لاکھ روپے دیے تھے‘ باقی ڈیڑھ کروڑ روپے لندن میں دیے جانے تھے‘ وہ مجھے ابھی تک نہیں ملے۔یہ لوگ ساری رقم خود کھا گئے ہیں‘‘ ایڈیشنل جج پرویز قادر میمن کا اعتراف حیران کن تھا‘ کمیٹی نے ایڈیشنل سیشن جج کو معطل کر دیا‘ 9 جون 2017ء کو شوکاز بھی کر دیاگیا‘ انکوائری ہوئی اور اگست 2017ء میں ایڈیشنل سیشن جج پرویز قادر میمن کو نوکری سے برطرف کر دیا گیا‘ جج نے یہ فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا‘ جج نے درخواست میں موقف اختیار کیا

’’میرے خلاف کسی شخص نے بے ضابطگی کی کوئی درخواست نہیں دی۔پروموشن کمیٹی کا کام میری پروموشن تھا‘ یہ مجھے سزا کیسے دے سکتی ہے اور کمیٹی کے پاس میرے اعتراف کا کیا ثبوت ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ‘ یہ معاملہ پرویز قادر میمن کی اس درخواست تک خفیہ تھا‘ ہائی کورٹ کے دونوں ججز عدلیہ کی بدنامی کی وجہ سے خاموش تھے لیکن پرویز قادر کی درخواست کے بعد یہ معاملہ میڈیا تک پہنچا‘ خبریں بنیں اور یوں رجسٹرار ہائی کورٹ نے مجبوراً 15 فروری 2018ء کو پرویز قادر کی برطرفی کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا۔



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟


سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…

کنفیوژن

وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…