اسلام آباد (این این آئی)پاکستان اور افغانستان کے سرمایہ کاروں اور تاجروں نے اسلام آباد میں تین روزہ مذاکرات کے بعد دونوں حکومتوں پر زور دیا ہے کہ تجارت کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان اختلافات کی وجہ سے تجارت کو شدید دھچکا لگا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں تجارت کا حجم 2.7ارب ڈالر سے کم ہو کرتقریباً 1.2ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے حالانکہ دونوں ممالک نے 2014ء میں فیصلہ کیا تھا کہ تجارت کو پانچ سالوں میں 5ارب ڈالر تک بڑھایا جائیگا ۔
افغانستان کے صنعت و تجارت کے سربراہ خان جان لکوزئی نے پاکستانی تاجر نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے بعد جاری کئے گئے مشترکہ اعلامیہ میں کہا کہ گوادر ار کراچی کی بندر گاہیں افغانستان کے بہت قریب ہیں ہم ان کے ذریعے تجارت چاہتے ہیں نہ کہ ایران کی چاہ بہار اور بندر عباس بندر گاہوں سے ۔پاکستان افغانستان مشترکہ چیمبر آف کامرس کے سربراہ محمد زبیر موتیوالا نے کہاکہ پاکستانی حکام سے مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارت واپس اپنی معمول پر آجائیگی ۔انہوں نے کہا کہ بہت جلد پاکستان اور افغانستان کے صنعت و تجارت کے مشترکہ اجلاس منعقد ہونگے جس میں تاجروں کو درپیش مسائل پر غور کے بعد ان کے حل کیلئے لائحہ عمل بنایا جائیگا ۔پاکستان اور افغانستان کے تاجروں کے تین روزہ مذاکرات اسلام آباد میں تحقیقاتی ادارے سی آر ایس ایس میں منعقد کرائے تھے ۔خان جان الکوزئی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات کی تناؤ کی وجہ سے تجارت پر منفی اثر تا ہے اسی لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ تجارتی تعلقات کو سیاست سے الگ کیا جائے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی جگہ بھارت کے علاوہ کوئی بھی ملک نہیں لے سکتا ٗپاکستان کی بندر گاہیں پاکستان کی جنوبی اور مشرقی علاقوں کے قریب ہیں اور افغان تاجر انہی راستوں کے ذریعے اپنی تجارت برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کو افغانستان کیساتھ تجارت میں جو مقام حاصل ہے
وہ کوئی بھی دوسرا ملک نہیں لے سکتا تاہم انہوں نے کہاکہ اگر پاکستان میں افغان تاجروں کیلئے مشکلات پیدا ہوں ٗ سرحد بار بار بند ہوتی ہو اور راہ داری معاہدے پر عمل نہ ہو تو تجارت متاثر ہو جاتی ہے ۔اس موقع پر محمد زبیر موتیوالا نے کہا کہ مسئلہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستانی تاجروں کیلئے مختلف اقدامات سے مشکلات پیدا کی جاتی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ کشیدگی کی وجہ سے پاک افغان تجارت میں تقریباً پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے ۔انہوں نے کہاکہ افغان سفیر نے پاکستانی
اور افغان تاجروں سے گزشتہ روز ملاقاتوں میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکام سے ان کی حالیہ ملاقاتوں میں انہیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ د ونوں ممالک کے درمیان تجارت میں تمام حائل رکاوٹوں کو بہت جلد دور کیا جائیگا ۔انہوں نے کہاکہ افغانستان ٗ پاکستان کیلئے ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے اور افغانستان کو پاکستان کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدہ بھی کر نا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ گزشتہ دو روز کے دور ان پاکستان اور افغانستان کے تاجروں نے پاکستان میں امریکی اور برطانوی سفارتکاروں سے بھی ملاقاتیں کی ہیں
جنہوں نے بھی دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں مشکلات حل کر نے میں تعاون کا یقین دلایا ہے ۔انہوں نے کہاکہ اگر دونوں ممالک کے درمیان تجارت بڑھتی ہے تو اس کا امن عمل کیلئے اقدامات پر مثبت اثر پڑے گا ۔انہوں نے کہاکہ تاجر دونوں ممالک کے درمیان ایک پل کا کر دارادا کررہے ہیں ۔انہوں نے انکشاف کیا کہ تعلقات کی خرابی کی وجہ سے چند سال پہلے دونوں ممالک کے درمیان ستر ہزار کنٹینروں کی آمدورفت میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے اور اب یہ تعداد سات ہزار تک پہنچ گئی ہے ۔
خان جان الکوزئی نے مزید کہاکہ افغان تاجروں نے اپنی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تجارت بڑھانے کیلئے گزشتہ دو سالوں سے راہداری مسئلہ پر ہونے والے مذاکرات جلد بلائے جائیں ۔انہوں نے کہاکہ افغان تاجر دیگر ممالک کی بجائے پاکستان کے راستے تجارت کو اس لئے ترجیح دے رہے ہیں کہ یہ دونوں ممالک کیلئے راستہ بہت کم ہے ۔اس سوال پر کہ افغانستان کیوں پاکستان افغانستان کے درمیان دوطرفہ راہداری معاہدے میں بھارت کی شمولیت پر اصرار کررہا ہے تو انہوں نے کہاکہ پاکستان نے
جب معاہدے میں تاجکستان کی شمولیت کی تجویز پیش کی تو افغانستان نے بھی پاکستان سے تجارت کیلئے پاکستان کے زمینی راستے کے استعمال کا مطالبہ کیا ۔دریں اثناء مذاکرات کے اختتام پر جاری کئے گئے ایک مشترکہ بیان میں پاکستان اور افغانستان کے تاجروں نے دونوں حکومتوں کی جانب سے سرحد پر نگرانی موثر بنانے کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا تاہم انہوں نے کہاکہ ان اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت متاثر نہ ہو ۔