لاہور (پ ر) لاہور میں جمعتہ المبارک 23 فروری پنجاب کے سول افسران کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں صوبائی اور وفاقی سروسز کے تین سو سے زائد افسران نے شرکت کی، اس غیر معمولی اجلاس میں مختلف افسران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور موقف اختیار کیا کہ فرض شناس اور محنتی افسران کے لیے کام کرنا مشکل بنایا جا رہا ہے، گزشتہ کئی سالوں سے افسران کی سیاسی اور دیگر حلقوں کی جانب سے تذلیل کا جو سلسلہ جاری ہے اس کی پرزور مذمت کی گئی اور اظہار کیا گیا کہ گزشتہ روز احد خان چیمہ کی سرعام تذلیل اس رجحان کی بدترین شکل ہے۔
تمام شرکاء اس بات پر بھی متفق پائے گئے کہ غیر جانبدارانہ اور شفاف احتساب پبلک سروس کا بنیادی اصول ہے اور کوئی پبلک سرونٹ اس سے بالاتر نہیں ہو سکتا، اس سلسلہ میں ماضی میں افسران کی تضحیک کے واقعات کا ذکر بھی کیا گیا مزید اس بات کی وضاحت کی گئی کہ ہر افسر اپنے انفرادی فعل کا خود ذمہ دار اور جواب دہ ہے اور قصور ثابت ہونے کی صورت میں اس کو قرار واقعی سزا دینی چاہیے تاہم احتساب کے نام پر تضحیک و تذلیل کا کوئی جواز نہ تھا اس لیے ان واقعات کا اس وقت نوٹس نہ لیے جانے پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا جس میں بالخصوص مقبول احغمد دھاولہ، وسیم اجمل چوہدری، عامر عقیق، صفدر ورک، خاقان بابر، عثمان اکرم گوندل، محمد علی نیکوکارہ، خرم شہزاد، آفتاب احمد چیمہ و دیگر افسران کی تضحیک کی گئی۔ سول افسران نے ہمیشہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر ریاست اور عوام کی خدمت کی ہے تاہم جس طرح سے احد خان چیمہ اور دیگر افسران کی زیر حراست تصاویر بنائی گئیں اور غیر قانونی طور پر مشتہر کیا گیا اس پر انتہائی غم و غصہ کا اظہار کیا گیا، مقررین نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ اس ساری کارروائی کا مقصد مذکورہ افسران کی تضحیک و تذلیل اور ان کے خاندانوں کو اذیت پہنچانا اور حراساں کرنا تھا۔ جس کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں ہے۔ اس رویہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور اس غیر قانونی کارروائی کو مسترد کیا گیا، آخر میں اس ذلت آمیز انتقامی رویے کا حکومت اور مقتدر حلقوں سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا اور مزید یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ موجودہ احتسابی قوانین میں موجود خامیوں کی نشاندہی کے بعد مجوزہ قوانین اور ضابطوں میں ترامیم کی جائیں تاکہ سرکاری افسران عزت نفس کے ساتھ بلاخوف و خطر ملکی مفاد میں اپنی ذمہ داریاں ادا کر سکیں اور مزید یہ کہ سپریم کورٹ کے انیتا تراب علی کیس کے تاریخی فیصلے میں وضع کردہ اصولوں پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ ایک ترقی پسند اور فلاحی ریاست کے قیام میں سول سروس اپنا مضبوط کردار ادا کر سکے جس کا خواب قائداعظم نے دیکھا تھا۔