اسلام آباد (نیوز ڈیسک) معروف صحافی و کالم نگار ہارون رشید نے اپنے کالم میں فاروق عادل کی کتاب ”جو صورت نظر آئی‘‘ سے ایک اقتباس پیش کیا جس میں انہوں نے کہا کہ باراک اوباما کی صدر بننے کی پیش گوئی قائداعظم نے 1948ء میں کر دی تھی، انہوں نے اپنے کالم میں لکھا کہ عشروں پہلے پیش آنے والے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے مرزا جواد بیگ آب دیدہ ہو گئے۔ انہوں نے گلو گیر آواز میں کہا ”ایسے تھے ہمارے قائدِ اعظمؒ ‘‘بارک اوباما صدر منتخب ہوئے تو ریاض اینڈی نے انکشاف کیا
کہ قائدِ اعظمؒ نے تو یہ پیشین گوئی 1948ء میں کر دی تھی۔ ”وہ کیسے؟‘‘۔ ریاض لحظہ بھر پر سکون رہا۔ پھر کہا: قائدِ اعظمؒ نے فرمایا تھا ”ینگ مین! سیاہ فام امریکی پہلے کھیلوں میں نام پیدا کریں گے۔ پھر وہ سیاست پر چھا جائیں گے‘‘ ”قائدِ اعظمؒ کا یہ بیان تم نے خود سنا؟‘‘ طنزیہ لہجے میں پوچھا گیا۔ اس نے جواب دیا ”نہیں، میں نے یہ بیان کرنل اجمل سے سنا‘‘… ”اور یہ کرنل صاحب کون تھے؟‘‘ اس نے کہا” وہ قائدِ اعظمؒ کے عملے میں شامل تھے‘‘۔ حاضرین اب ایک دلچسپ کہانی کے انتظار میں دم سادھ کر بیٹھ گئے۔ ریاض لحظہ خاموش رہا۔ پھر کرنل کی زبانی اس نے کہانی کا آغاز کیا، انہوں نے مزید لکھا کہ ”دو پہر ہوئی، سب لوگ آرام کے لیے اپنے اپنے کمرو ں میں چلے گئے تو قائدِ اعظمؒ نے مجھے طلب کیا۔ چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ تھی، جس کے نور نے علالت کے آثار کچھ مٹا سے دیئے تھے۔ میرے سوکھے دل کی کلی کھل اٹھی جو قائد کا علیل چہرہ دیکھ دیکھ کر مرجھا چکی تھی۔ سفید بیڈ شیٹ، سفید تکیہ اور سفید کرتے پاجامے میں ملبوس قائدِ اعظمؒ ! یہ منظر ایسا تھا جو میری آنکھوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو گیا۔ میں ابھی مبہوت کھڑا تھا کہ قائد کے چہرے کی مسکراہٹ میں کچھ اور اضافہ ہوا۔ انہوں نے فرمایا ”ینگ مین! میرا ایک کام کرو گے؟‘‘ ”یس سر!‘‘ میں نے مستعد سپاہی کی طرح کہا۔ میرا جواب سن کر قائد کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کچھ
اور اجاگر ہو گئی۔ قریب آنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا ”سنو‘‘ میں تقریباً ان کے سینے پر جھک گیا۔ قائد نے فرمایا ”مجھے ایک تربوز لا دو گے؟‘‘ ”یہ فرمائش سن کر میں حیران رہ گیا‘‘۔ کرنل نے گہری سانس لی۔ پھر کہا ”قائدِ اعظمؒ سخت علیل تھے اور علاج کے لیے زیارت میں مقیم تھے۔ پرہیز اور دواؤں نے ان کے منہ کا ذائقہ بگاڑ رکھا تھا۔ تربوز کی طلب بھی اسی سبب سے تھی لیکن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش سے اس کی اجازت نہ مل سکتی تھی۔ وہ ہر چیز کی نگرانی کرتے۔ مادر ملت دوا اور غذا پر کڑی نظر رکھتیں۔
ان دونوں سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ قائدِ اعظمؒ نے اس کام کے لیے مجھے چنا۔ اس روز دوپہر تک انہوں نے انتظار کیا۔ مادرِ ملت اور کرنل صاحب کھانے کے بعد آرام کے لیے چلے گئے تو قائدِ اعظمؒ نے مجھے طلب کیا۔ میں مشکل میں پڑ گیا لیکن ذرا سی دیر میں، جیسی فوجیوں کی تربیت ہوتی ہے، میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں قائدِ اعظم ؒ کی یہ خواہش ضرور پوری کروں گا۔سائیکل لے کر تربوز کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ ریزیڈنسی سے بازار ذرا فاصلے پر تھا۔ اس لیے واپسی میں تھوڑی دیر تو لگی لیکن کام ہو گیا۔ قائدِ اعظمؒ کو جب اس کی خبر میں نے کی تو ان کی آنکھوں میں چمک آ گئی۔ دھوپ ڈھلنے لگی تھی۔ اس لیے خدشہ تھا کہ اب کسی وقت بھی کوئی آ سکتا ہے۔ اس لیے باقی کام رات پر چھوڑ دیا گیا۔ رات ہوئی اور لوگ سونے کے لیے جا چکے تو قائدِ اعظمؒ اور میرے درمیان اشاروں کنایوں میں بات چیت شروع ہو گئی۔