ہفتہ‬‮ ، 25 مئی‬‮‬‮ 2024 

افغانستان میں امریکہ کا ڈرون حملہ، ایک ہی خاندان کے 15 افراد نشانہ بن گئے، صرف ایک 4 سالہ معصوم بچی بچ گئی لیکن پھر امریکیوں نے ہی اس معصوم بچی کے ساتھ کیا، کیا؟ لرزہ خیز انکشافات

10  فروری‬‮  2018

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک) امریکہ ڈرون حملوں میں دہشت گردوں کو نشانہ بناتا ہے لیکن ان ڈرون حملوں سے صرف دہشت گرد نہیں مارے جاتے بلکہ ان کا نشانہ عام شہری بھی بنتے ہیں اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے عام شہریوں کے ساتھ بچے بھی لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ ایسے واقعات کو چھپایا کیسے جاتا ہے اس بارے میں ایک تحقیقاتی ویب سائٹ Intercept نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کنڑ صوبہ افغانستان کے مشرق میں واقع ہے اس کا دارالخلافہ اسد آباد ہے جو کہ 30 ہزار آبادی پر مشتمل ہے۔

یہ شہر ایک گاؤں کی مانند ہے جہاں پر کوئی بھی بات ہو سب کو خبر ہوتی ہے۔ ایسا ہی ایک ڈرون حملہ 7 ستمبر 2013ء کو کیا گیا، اس شہر سے آٹھ مرد، تین عورتیں اور کچھ بچے سرخ رنگ کی ٹیوٹا پک اپ گاڑی میں سوار ہو کر اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے، ان کا گاؤں شہر سے اڑھائی گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ جب یہ گاڑی شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب ٹوٹی پھوٹی سڑک پر جا رہی تھی تو ایک امریکی ڈرون طیارے نے اس پر پہلا میزائل داغا، اگلے تین منٹ کے دوران تین مزید میزائل چلائے گئے اور 10 منٹ بعد ایک اور میزائل داغا گیا۔ اس ڈرون حملے نے نہ صرف پک اپ گاڑی کے پرخچے اُڑا دیے بلکہ اس میں سوار لوگوں کے جسم خون آلود چیتھڑوں میں تبدیل ہو گئے۔ رپورٹ کے مطابق اس بدقسمت خاندان کا قریبی عزیز محب اللہ سب سے پہلے جائے وقوعہ پر پہنچا اور جو منظر دیکھا اس کے متعلق اس نے بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ان سب افرا دکی لاشیں اس حد تک مسخ ہوچکی تھیں کہ انہیں پہچاننا بھی ممکن نہیں تھا۔ اس موقع پر میں نے ایک ننھی بچی کو دیکھا جس کے چہرے سے اسے پہچاننا ممکن نہیں تھا اور میرے لیے یہ سمجھنا بھی مشکل تھا کہ اس کی ٹانگیں اس کے جسم سے جڑی ہوئی ہیں یا محض گوشت کے لوتھڑے اوپر تلے پڑے ہیں۔ محب اللہ نے بتایا کہ پھر اس نے نہایت کمزور سی آواز میں پکارا میرے ابا کہاں ہیں اور تب مجھے اندازہ ہوا کہ وہ میری بھتیجی عائشہ ہے۔ اس حملے میں صرف وہی زندہ بچی تھی، باقی سب افراد موت کی وادی میں چلے گئے تھے۔

محب اللہ نے بتایا کہ میری بھتیجی چار سالہ عائشہ کی صرف ایک آنکھ نظر آ رہی تھی، ناک چہرے سے الگ ہوگئی تھی اور چہرے کی جلد اُدھڑ چکی تھی جبکہ نیچے والا ہونٹ بھی کٹ چکا تھا۔ اس معصوم کا ایک ہاتھ بھی کٹ گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق حملے کے سات گھنٹے بعد چار سالہ عائشہ کو اسد آباد کے ایک ہسپتال پہنچایاگیا۔ ابتدائی طبی امدا دکے بعد اسیجلال آباد پبلک ہیلتھ ہسپتال منتقل کر دیا گیا اور پھر وہاں سے اسے کابل ائیر پورٹ پر فرانسیسی ملٹری ہسپتال منتقل کیا گیا۔ چار سالہ عائشہ کے چچا میا جان نے بتایا کہ وہاں ایک دراز قد غیرملکی خاتون آئی اور ان سے کہا کہ وہ عائشہ کو علاج کے لیے بیرون ملک لے جانا چاہتی ہے۔

عائشہ کے چچا نے بتایا کہ وہ اپنی بھتیجی عائشہ کو اس کے حوالے نہیں کرنا چاہتے تھے مگر اس کے مسلسل اصرار اور بچی کی حالت ٹھیک نہ ہونے پر انہوں نے کچھ کاغذات پر دستخط کیے اور پھر ان کو بتائے بغیر ان کی چار سالہ بھتیجی عائشہ کو ہسپتال سے غائب کر دیا گیا۔ عائشہ کے چچا میا جان نے کہا کہ وہ بچی کے بارے میں سب سے پوچھتے رہے مگر انہیں کچھ بھی نہیں بتایاگیا، ایک عرصہ تک سراغ لگانے کی کوشش کرتے رہے مگر انہیں عائشہ کے بارے میں کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کس حال میں ہے، انہوں نے بتایا کہ ایک دن اچانک فون کال آئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کی بھتیجی عائشہ امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے ایک ہسپتال میں ہے

اور اس کا علاج ہو رہا ہے۔ تحقیق کرنے والے صحافیوں کا اس بارے میں کہنا ہے کہ عائشہ کو ایک این جی او سولیس مشکوک انداز میں غائب کرکے یہاں سے لے گئی اس این جی او کا کہنا ہے کہ وہ جنگ میں متاثرہ بچوں کے لیے کام کرتی ہے مگر اس کا اصل مقصد کچھ اور ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ یہ این جی او عائشہ کو عالمی میڈیا کی نظروں سے بچانے کے لیے چپکے سے اسے امریکہ لے گئی تا کہ اس کی خون آلود تصاویر اور رونگٹے کھڑی کر دینے والی داستان دنیا کے سامنے نہ آ سکے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ تو صرف ایک واقعہ ہے، معلوم نہیں کہ ایسے کتنے واقعات ہوں گے جن سے دنیا واقف نہیں۔

موضوعات:



کالم



ایک نئی طرز کا فراڈ


عرفان صاحب میرے پرانے دوست ہیں‘ یہ کراچی میں…

فرح گوگی بھی لے لیں

میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں‘ فرض کریں آپ ایک بڑے…

آئوٹ آف دی باکس

کان پور بھارتی ریاست اترپردیش کا بڑا نڈسٹریل…

ریاست کو کیا کرنا چاہیے؟

عثمانی بادشاہ سلطان سلیمان کے دور میں ایک بار…

ناکارہ اور مفلوج قوم

پروفیسر سٹیوارٹ (Ralph Randles Stewart) باٹنی میں دنیا…

Javed Chaudhry Today's Column
Javed Chaudhry Today's Column
زندگی کا کھویا ہوا سرا

Read Javed Chaudhry Today’s Column Zero Point ڈاکٹر ہرمن بورہیو…

عمران خان
عمران خان
ضد کے شکار عمران خان

’’ہمارا عمران خان جیت گیا‘ فوج کو اس کے مقابلے…

بھکاریوں کو کیسے بحال کیا جائے؟

’’آپ جاوید چودھری ہیں‘‘ اس نے بڑے جوش سے پوچھا‘…

تعلیم یافتہ لوگ کام یاب کیوں نہیں ہوتے؟

نوجوان انتہائی پڑھا لکھا تھا‘ ہر کلاس میں اول…

کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

فواد حسن فواد پاکستان کے نامور بیوروکریٹ ہیں‘…

گوہر اعجاز سے سیکھیں

پنجاب حکومت نے وائسرائے کے حکم پر دوسری جنگ عظیم…