اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) انسداد دہشت گردی کی عدالت نے گزشتہ روز مشال قتل کیس کا فیصلہ سنایا، اس فیصلے کے تحت ایک کو سزائے موت، پانچ کو عمر قید اور پچیس کو پانچ پانچ سال قید جبکہ دیگر 26 ملزمان کو عدالت کی طرف سے بری کر دیا گیا، بری ہونے والے ایک ملزم کا اعترافی بیان سامنے آیا ہے، عدالت کی طرف سے بری ہونے والے یونیورسٹی میں ڈرائیور حضرت بلال ولد محبت خان نے
جوڈیشل مجسٹریٹ محیب الرحمان کی عدالت میں اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ بھی ہجوم میں شامل ہوگیا تھا کیونکہ ہاسٹل میں مشال خان اپنے کمرے میں کتے کو چومتا تھا، اس نے بتایا کہ گزشتہ سال 13 اپریل کو میں کنٹرولر ایگزامینیشن کی بیٹی کو چھوڑنے کے بعد واپس آیا، واپس آنے کے بعد کھانا کھانے کے لیے کینٹین چلا گیا، اسی دوران میں نے دیکھا کہ اچانک طلبا اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے ہاسٹل نمبر ایک کی طرف بھاگ رہے ہیں، اس نے کہا کہ میں بھی وہاں پہنچ گیا اور طلبا کی جانب سے مشال خان کے متنازع نظریات کے بارے میں سن کر غصے میں آ گیا۔ یونیورسٹی کے 39 سالہ ڈرائیور بلال نے کہا کہ وہاں پولیس بھی موجود تھی اور اس نے یہ بھی کہا کہ پولیس کو ساری صورتحال کا علم ہے، بلال نے کہا کہ میں بحیثیت مسلمان غصے میں آ گیا اور مشال خان کو تین تھپڑ مارے، اس نے بتایا کہ مشال ابھی زندہ تھا اور حنیف اسے لکڑی سے مار رہا تھا، اس نے کہا کہ حنیف عدالت میں بھی موجود ہے، بلال نے کہا کہ مشال نے اپنی غیر اسلامی اور غیر اخلاقی حرکتوں کی وجہ سے مسلمانوں کو اشتعال دلایا تھا، بلال نے بتایا کہ وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں کتے کو بھی چوم لیتا تھا، اس موقع پر عدالت کو بلال نے بتایا کہ میری مشال خان سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ جوڈیشل مجسٹریٹ محیب الرحمان کی عدالت میں اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ وہ بھی ہجوم میں شامل ہوگیا تھا