کولکتہ،بھارت(آئی این پی)قومی سلامتی کے سابق مشیر ایم کے نارائن نے گزشتہ روز کہا کہ اس عمل کا امکان ہے کہ بھارت اور چین کے درمیان اختلافات وسیع ہونگے۔ اور ڈوکلام تنازعہ اس قسم کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے انہوں نے خبردار کیا کہ اختلافات کی وجہ سے ’’غیر متوقع اثرات ‘‘ مرتب ہوسکتے ہیں۔ بین الاقوامی سمپوزیم’’بھارت ۔ چین تعلقات ۔متنازعہ امور حل کرنا‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے
ا نہوں نے کہا کہ چینی اقتصادی وصنعتی امور پر اختلافات کے علاوہ تبت کے روحانی پیشواء دلائی لامہ کی بھارتی حمایت کی وجہ سے بھی جز بز ہیں۔ بھارتی انٹیلی جنس بیورو(آئی بی) کے سابق سربراہ نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ دونوں ممالک کے درمیان جنگ ہوگی بلکہ مسلسل تنازعہ رہے گا۔ چین کی توجہ مشرقی سے لداخ کی طرف منتقل ہوگئی ہے انہوں نے کہا کہ ڈوکلام کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے چین کے چھیڑ چھاڑ کے حربے جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا کوئی اختتام نہیں ہے چین بار بار اس کو دہرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چین اس کے ہمسایوں کو ناراض کرکے اور بھارت کو بغیر دوست والا بنا کر بھارت کا گلا گھونٹنے کی کوشش کررہا ہے انہوں نے کہا کہ چین نے بھارت کے ہمسایوں پر کامیابی حاصل کرنے کی کوشش میں اقتصادی بلیک میل سمیت مختلف ذرائع اپنائے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین نے نیپال ،سری لنکا ،مالدیپ اور بنگلہ دیش کے ساتھ اس قسم کےحربے اپنائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان علاقے میں چینی عزائم کا ’’اہم ملک ‘‘ ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین کے سری لنکا کی ہم بن ٹوٹا بندرگاہ پاکستان میں گوادر بندرگاہ کو طویل میں لینے اور جبوتی (افریقہ) میں بحری اڈے کا قیام اور اس قسم کی موجودگی میں اضافہ کرنے والے عزائم سے ان دونوں ایشیائی ممالک کے درمیان تعلقات ابتر ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے طاقت کا توازن تبدیل ہوگا
جو بھارت کے مفاد میں نہیں ہوگا ، انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات وسیع ہونے کا امکان ہے۔ مشترکہ بنیاد تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ اختلافات کی وجہ سے غیر متوقع اثرات مرتب ہونگے۔ اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی فوج کے سابق سربراہ ریٹائر جنرل شنکر رائے چوہدری نے اس امید کا اظہار کیا کہ بھارت چین کی فوجی طاقت کا ہم پلہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا
کہ بحر ہند میں چینی خطرے کے بارے میں بہت کچھ کہا جارہا ہے تاہم بھارت چین کے مقابلے میں دفاعی لحاظ سے کہیں بہتر ہے۔ اس دوروزہ سیمینار کا اہتمام کولکتہ میں قائم تھنک ٹینک تحقیقی مرکز برائے مشرقی و شمال مشرقی علاقائی مطالعہ نے کیا۔