پیار کرنے والوں کی مسرت میں اضافہ کرنے اور پیار کے اظہار کا ایک روایتی موقع فراہم کرنے کیلئے ”ویلنٹائن ڈے“ پھر آن پہنچا ہے اور ہمیشہ کی طرح یہ بحث پھر جاری ہے کہ ہمیں یہ دن منانا چاہیے یا نہیں، اس دن کی تاریخ کیا ہے اور یہ تہوار کہاں سے شروع ہوا اور کس نے شروع کیا؟ ایک عام اور مشہور روایت کے مطابق تیسری صدی عیسیوی کی سلطنت روم میں حکمران کلاڈئیس دوئم نے نوجوانی میں شادی کرنے پر پابندی عائدکردی تھی۔
کلاڈئیس کا خیال تھا کہ شادی شدہ اور بچوں والوں کی نسبت غیر شادیشدہ مرد بہتر سپاہی اور جنگجو ثابت ہوتے تھے لہٰذا اس نے نوجوانوں کو ایک مخصوص عمر سے پہلے شادی کرنے سے منع کردیا۔ اس شاہی فرمان کے باوجود ایک عیسائی پادری سینٹ ویلنٹائن پیار کرنے والے جوڑوں کی شادیاں کرواتا رہا اور اس جرم میں شہنشاہ نے اسے پھانسی پر چڑھادیا۔ اسی پادری کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منایا جانے لگا۔ ایک دوسری روایت کے مطابق سینٹ ویلنٹائن روم کی ایک جیل میں قید تھا اور وہ جیل کے نگران کی بیٹی کے عشق میں گرفتار تھا۔ اس نے ناظم جیل کی بیٹی کے نام محبت نامہ لکھا جس پر الفاظ “From your Valentine” درج تھے اور اسی دن سے ویلنٹائن ڈے اور اس کے کارڈز اور تحائف کی ریت چل پڑی۔ کچھ مورخین کا یہ بھی کہنا ہے کہ قدیم یونان اور روم میں زرخیزی اور کاشتکاری کے دیوتا Lupercalia کا دن 15 فروری کو منایا جاتا تھا اور اسی تہوار پر نوجوان لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے سے منسوب کیا جاتا تھا۔ بعد میں یہی دن رومی سلطنت اور پھر تمام مغربی دنیا م یں یوم محبت کے طور پر منایا جانے لگا۔ اگرچہ آج بھی اس دن کی تاریخ اور غرض و غایت متنازعہ ہے مگر مشرق و مغرب میں ہر جگہ اسے منایا جاتا ہے