کل پنجاب پولیس نے زینب کے قاتل کو گرفتار کرکے واقعی کمال کر دیا‘ پنجاب کی پولیس اور وزیراعلیٰ دونوں اس کارنامے پر خراج تحسین کے مستحق ہیں لیکن وزیراعلیٰ کی پریس کانفرنس نے خراح تحسین کا سارا ذائقہ خراب کر دیا‘ کریڈٹ لینے کی کوشش الٹی گلے پڑ گئی‘ کل وزیر اعلیٰ پنجاب سے چار غلطیاں ہوئیں‘ یہ غلطیاں نہ ہوتیں تو آج صورتحال مختلف ہوتی‘ وزیراعلیٰ نے کل کہا تھا‘ سیاست نہیں ہونی چاہیے لیکن کل ہی وزیراعلیٰ نے پریس کانفرنس کر کے خود معصوم بچی کی لاش پر سیاست کا آغاز کر دیا‘
یہ ان کی پہلی غلطی تھی‘ دوسری غلطی اہلکاروں کو شائننگ سٹار ڈکلیئر کرنا تھا، یہ تمام لوگ یقیناً شائننگ سٹار ہوں گے لیکن ملزم عمران نے زینب سے پہلے دس بچیوں کے ساتھ زیادتی بھی کی اور انہیں قتل بھی کیا‘ قوم کے یہ شائننگ سٹار ان بچیوں کے قتل کے دوران کہاں تھے‘ شاید زینب کے قتل سے قبل میڈیا ایکٹو نہیں ہوا تھا‘ چیف جسٹس اور چیف منسٹر نے نوٹس نہیں لیا تھا اور اپوزیشن علامہ طاہر القادری کے ساتھ قصور نہیں گئی تھی چنانچہ قوم کے یہ شائننگ سٹار سوئے رہے‘ کیا ان شائننگ سٹارز کو جگانے کیلئے ہمیشہ نوٹس لینا پڑے گا اور میڈیا کا ڈھول پیٹا جائے گا‘ تیسری غلطی وزیر اعلیٰ کو پریس کانفرنس نہیں کرنی چاہیے تھی‘ آپ ڈی پی او یا آر پی او کو پریس کانفرنس کرنے دیتے‘ آپ کو چیف منسٹر کے لیول سے ڈی پی او کی سطح پر آنے کی کیا ضرورت تھی‘ دوسرا آپ نے صرف زینب کے والد کو کیوں بلایا‘ آپ نے ان دس بچیوں کے والدین کو اپنے ساتھ کیوں نہیں بٹھایا جو اسی درندے کی درندگی کا نشانہ بنی تھیں‘ کیا ان بچیوں کا یہ جرم تھا کہ ان کی آواز میڈیا نے نہیں اٹھائی تھی‘ چیف جسٹس نے نوٹس نہیں لیا تھا اور علامہ طاہر القادری ان کے گھر نہیں گئے تھے اور چوتھی غلطی قہقہے ، تالیاں، مبارکبادیں،مائیک بند کرنا، ہم اگر یہ کلپس دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے سٹیج پر صرف ایک دکھی شخص تھا اور وہ شخص زینب کا والد تھا‘ یہ پاکستان کی تاریخ کا افسوس ناک ترین واقعہ تھا‘ پوری قوم اس پر دکھی تھی‘
آپ کو اس موقع پر قہقہے نہیں لگانے چاہیے تھے‘ تالیاں نہیں بجانی چاہئیں تھیں‘ آپ کو زینب کے والد کا مائیک بھی بند نہیں کرنا چاہیے تھا‘ آپ کی اس چوتھی غلطی پر آج سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں کیا کہا اور اس کا جواب داخلہ کے سٹیٹ منسٹر نے دیا، میرا خیال ہے وزیراعلیٰ کو کل کی پریس کانفرنس پر معذرت کرنی چاہیے اور طلال چودھری کو بھی اپنی زبان قابو میں رکھنی چاہیے اور آخری میسج عمران علی کو پولیس اور خفیہ اداروں کے شائننگ سٹارز نے گرفتار نہیں کیاتھا‘ یہ کارنامہ سپیشل برانچ قصور کے ایک سب انسپکٹر محمد صدیق نے سرانجام دیا تھا‘ وزیراعلیٰ کو اس شخص کو ایک کروڑ روپے انعام بھی دینا چاہیے اور اس کیلئے تالیاں بجانی چاہئیں‘ کیا چیف منسٹر کی پریس کانفرنس غلطی تھی‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔