قصور(مانیٹرنگ ڈیسک) قصور پولیس نے زینب قتل کیس کے ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے ماڈرن سائنٹفک ٹیکنالوجی سے مایوس ہو کر روایتی طریقہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حسین خاں والا جنسی سکینڈل کی زد میں آ کر قصور سے تبدیل ہونے والے پولیس افسران کو بھی مدد کے لیے بلا لیا گیا۔ تفصیل کے مطابق قصور پولیس انتہائی جدید سائنٹفک ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے بھی زینب قتل کیس کے ملزم کو تاحال ٹریس کرنے میں ناکام ہو چکی ہے ۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اب پولیس نے ان سائنٹفک بنیادوں پر تفتیش کو آگے بڑھانے کی بجائے روایتی طریقہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔جس کا ایک اہم ثبوت یہ ہے کہ پولیس نے ضلع بھر سے ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے جن میں پرانے ریکارڈ یافتہ،دم درود، تعویذ گنڈہ کرنے والے اور دیگر مشکوک افراد شامل ہیں جس سے اب پولیس کی چاندی ہو گئی ہے۔پولیس اہلکار کسی بھی شخص کو زینب قتل کیس میں شامل تفتیش کرنے کی دھمکی دے کر ان سے بھاری رقوم بطور رشوت وصول کر رہے ہیں۔اس کے علاوہ وہ پولیس افسران جن کی غلط پالیسیوں اور نا اہلی کی وجہ سے ضلع قصور میں حسین خاں والا جنسی سکینڈل نے جنم لیا اور جن کو اس حوالے سے ضلع بدری سمیت مختلف نوعیت کی سزائیں دی گئیں ان کو بھی قصور پولیس نے اب اپنی مدد کے لیے بلا لیا ہے۔جس کو عوامی حلقوں کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔عوامی سماجی حلقوں نے وزیر اعلٰی پنجاب اور آئی جی پنجاب سے مطالبہ کیا ہے کہ زینب قتل کیس کے ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن معصوم،بے گناہ اور شریف شہریوں کو خوامخواہ تنگ نہ کیا جائے۔ قصور پولیس نے زینب قتل کیس کے ملزم کی گرفتاری کے حوالے سے ماڈرن سائنٹفک ٹیکنالوجی سے مایوس ہو کر روایتی طریقہ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ حسین خاں والا جنسی سکینڈل کی زد میں آ کر قصور سے تبدیل ہونے والے پولیس افسران کو بھی مدد کے لیے بلا لیا گیا۔