ہفتہ‬‮ ، 21 جون‬‮ 2025 

گوگل پر مرد و خواتین ملازموں نے صنفی تفریق کا مقدمہ دائر کردیا

datetime 9  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنی ’گوگل‘ پر سابق مرد و خواتین ملازموں نے الگ الگ قانونی مقدمات دائر کرتے ہوئے کمپنی پر امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا ہے۔ مرد ملازموں کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں کمپنی پرسیاہ فام قدامت پسند مردوں کے خلاف امتیازی سلوک برتنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جب کہ خواتین کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے میں کمپنی پر عورتوں کے مقابلے مردوں کو

زیادہ تنخواہیں دینا کا الزام لگایا گیا ہے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق گوگل کے خلاف مقدمہ دائر کرنے والے سابق مرد ملازمین میں سے ایک سافٹ ویئر انجنیئر جیمز ڈیمور ہے۔ گوگل پر سیاہ فام سفید مردوں کے ساتھ صنفی تفریق کا مقدمہ دائر کرنے والا دوسرا ملازم ڈیوڈ گوئڈامن بھی ماضی میں کمپنی میں انجنیئر کی خدمات سر انجام دے چکا ہے۔ یہ بھی پڑھیں: صنفی تفریق سے متعلق مراسلہ لکھنے والا گوگل ملازم نوکری سے فارغ دونوں سابق ملازمین نے گوگل کے خلاف امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سانتا کلارا سپیریئر کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔ مرد ملازمین نے کمپنی کے خلاف سیاہ فام قدامت پسند مرد ملازمین کو سیاسی بنیادوں پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنائے جانے جیسے الزامات عائد کیے ہیں۔ خیال رہے کہ گوگل پر مقدمہ دائر کرنے والے سابق ملازم جیمز ڈیمور نے اگست 2017 میں خواتین کے خلاف ایک میمو لکھا تھا، جس کے بعد اسے ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا۔ مزید پڑھیں: گوگل میں مردوں کے مقابلے خواتین کی تنخواہ کم دوسری جانب گوگل کے خلاف تین سابق خواتین ملازموں نے بھی الگ قانونی مقدمہ دائر کردیا۔ بی بی سی کی خبر کے مطابق گوگل پر خواتین نے ابتدائی طور پر ستمبر 2017 میں مقدمہ دائر کیا تھا۔ تینوں خواتین نے سان فرانسسکو کی مقامی عدالت میں گوگل پر خواتین کو مردوں کے مقابلے کم تنخواہ دینے کا مقدمہ دائر کیا۔ خواتین کے مطابق انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کی سب سے بڑی کمپنی

ایک جتنا اور ایک ہی عہدے پر کام کرنے کے باوجود خواتین کو مردوں کے مقابلے کم معاوضہ ادا کرتی ہے۔ ادھر گوگل نے تمام قانونی مقدمات کا سامنا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خیال رہے کہ گوگل پر اس سے قبل بھی صنفی تفریق اور خصوصی طور پر خواتین و مردوں کی تنخواہوں میں فرق جیسے الزامات لگتے رہے ہیں۔ امریکی محکمہ لیبر نے جنوری 2017 میں گوگل پر ملازمین کا ڈیٹا،

تنخواہیں اور دیگر معلومات نہ دینے کے حوالے سے بھی ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ گوگل قانونی طور پر حکومت کو ڈیٹا فراہم کرنے سمیت وفاقی آئین کے تحت ملازمین کو یکساں معاوضے فراہم کرنے کا پابند ہے۔ خیال رہے کہ گوگل میں ٹیکنالوجی کے شعبے میں خواتین ملازمین کی تعداد صرف 19 فیصد ہے، جب کہ گوگل میں خواتین ورکرز کی مجموعی تعداد 70 ہزار ہے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



کنفیوژن


وراثت میں اسے پانچ لاکھ 18 ہزار چارسو طلائی سکے…

دیوار چین سے

میں دیوار چین پر دوسری مرتبہ آیا‘ 2006ء میں پہلی…

شیان میں آخری دن

شیان کی فصیل (سٹی وال) عالمی ورثے میں شامل نہیں…

شیان کی قدیم مسجد

ہوکنگ پیلس چینی سٹائل کی عمارتوں کا وسیع کمپلیکس…

2200سال بعد

شیان بیجنگ سے ایک ہزار اسی کلومیٹر کے فاصلے پر…

ٹیرا کوٹا واریئرز

اس کا نام چن شی ہونگ تھا اوروہ تیرہ سال کی عمر…

گردش اور دھبے

وہ گائوں میں وصولی کیلئے آیا تھا‘ اس کی کمپنی…

حقیقتیں

پرورش ماں نے آٹھ بچے پال پوس کر جوان کئے لیکن…

نوے فیصد

’’تھینک یو گاڈ‘‘ سرگوشی آواز میں تبدیل ہو گئی…

گوٹ مِلک

’’تم مزید چارسو روپے ڈال کر پوری بکری خرید سکتے…

نیوٹن

’’میں جاننا چاہتا تھا‘ میں اصل میں کون ہوں‘…