بدھ‬‮ ، 27 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

مسلم لیگ( ن )کی اتحادی حکومت خاتمے کے قریب،مسلم لیگی حلقے سرجوڑ کر بیٹھ گے اقتدار کی کرسی پر کون بیٹھے گا؟فیصلہ مولانا فضل الرحمان کے ہاتھ میں ،حیرت انگیزانکشافات

datetime 5  جنوری‬‮  2018
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی اتحادی حکومت بیچ منجدھارکے ہچکولے ،کھانے لگی مسلم لیگی حلقے سرجوڑ کر بیٹھ گئے، اقتدار کی ہما جمیعت علمائے اسلا م (ف )کی حمایت سے مشروط کردی گئی ۔تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد 65ہے، حکومت بنانے کے لیے سادہ اکثریت کے لیے 33ارکان کی حمایت درکارہے،ثنااللہ زہری کی اتحادی حکومت میں 53ارکان شامل تھے،مسلم لیگ ن اوران کی

اتحادی جماعتوں کے 28ارکان نے زہری حکومت کے خلاف علم بغاوت بلندکردیاہے،باغی ارکان کا دعوی ہے کہ انہیں 38ارکان کی حمایت حاصل ہے۔بلوچستان میں پارٹی پوزیشن ک لحاظ سے ن لیگ کے20ارکان ،پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے14،نیشنل پارٹی کے 11،جے یوآئی کے 8،ق لیگ کے 5 اوربلوچستان نیشنل پارٹی کے 2ارکان ہیں،جب کہ 2 آزاد ارکان اسمبلی بھی ہیں ۔بی این پی عوامی،اے این پی اورمجلس وحدت مسلمین کا ایک ایک رکن ہے۔بلوچستان اسمبلی میں ن لیگ کے زیادہ ترارکان حکومت مخالف کیمپ میں چلے گئے ہیں،خیال ہے کہ ثنااللہ زہری کے ساتھ صرف دویاتین پارٹی ارکان ہی ہیں،جے یوآئی کے 8ارکان نے بھی تحریک عدم اعتماد پردستخط کیے ہیں تاہم مولانا فضل الرحمان کی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد حالات میں تبدیلی کے اشارے ملے ہیں،نیشنل پارٹی کے ایک رکن نے بھی پارٹی پالیسی کے برعکس ثنااللہ زہری کے خلاف علم بغاوت بلندکردیا ہے پھربھی ثنااللہ زہری کے لیے امید کی کرن ان کی اتحادی جماعتوں پشتونخوامیپ اورنیشنل پارٹی کے ساتھ جے یوآئی کے ارکان کی حمایت مل جائے تو ان کی حکومت بچ سکتی ہے،اگرایسا نہ ہوسکاتو ان کے لیے بہت مشکل ہوگی۔اس پوری صورت حال میں جے یوآئی کے 8ارکان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے،یوں کہیے بلوچستان حکومت کوبچانے یا گرانے کافیصلہ فضل الرحمان کے ہاتھ میں ہے۔دریں اثناء وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

کرائے جانے کے بعد غیر یقینی اور اگر مگر کی صورتحال بدستور قائم ،وزیراعلیٰ بلوچستان کیخلاف ن لیگ سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر محنت وافرادی قوت راحت جمالی اور صوبائی مشیر ایکسائز عبدالماجد ابڑو نے بھی عہدوں سے مستعفی ہونے کااعلان کردیاہے ،جس کے بعد اب تک مستعفی ہونے والے وزراء ،معاونین خصوصی کی تعداد5ہوگئی ہیں ۔رواح ہفتے کے دوران مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر داخلہ میرسرفرازاحمد بگٹی ،پاکستان مسلم لیگ(ق) کے میر عبدالقدوس بزنجو ،پرنس احمد علی ،مجلس وحدت المسلمین کے آغا رضا سمیت دیگر نے تحریک عدم اعتماد جمع کی

اوردعویٰ کیاکہ ان کے پاس تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کیلئے مطلوبہ اکثریت حاصل ہے جب سابقہ ٹرائیکا کے سرگرم ہونے اور تحریک عدم اعتماد کی خبریں میڈیا کی زینت بنی تو حکومت میں شامل اہم اتحادی جماعت پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی کے ساتھ ہنگامی پریس کانفرنس کرناپڑی جس میں انہوں نے اس بات کااعادہ کیاکہ ان کی جماعت ن لیگ کے ساتھ اتحادی ہے اور وہ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنائینگے جبکہ نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے میر خالد لانگو کے خلاف ایکشن لینے اور انہیں پارٹی کے فیصلوں کے پابند کرنے کااعادہ کرتے ہوئے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے عزم کااظہار کیا

اگر چہ ن لیگ کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے شانہ بشانہ ان کی اتحادی جماعتیں پشتونخوامیپ اور این پی ثابت قدم کھڑی نظرآتی ہیں لیکن وزیراعلیٰ بلوچستان کو اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) اور ق لیگ سمیت مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے مزاحمت کاسامنا ہے جمعہ کے روز اس وقت وزیراعلیٰ سمیت ن لیگ اور اس کی اتحادیوں کی تشویش ،خدشات میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب ن لیگ سے تعلق رکھنے والے خاتون وزیر محنت وافرادی قوت راحت جمالی اور صوبائی مشیر ایکسائز عبدالماجد ابڑو نے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کااعلان کرتے ہوئے اپنے استعفیٰ گورنربلوچستان کو ارسال کردئیے ہیں ۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی ن لیگ کے منتخب اراکین کے درمیان اختلافات وقتاََ فوقتاََ سامنے آتے رہے بلکہ گزشتہ سینیٹ انتخابات میں اختلافات عروج پر پہنچ چکے تھے گزشتہ روز راحت جمالی اور عبدالماجد ابڑو کی جانب سے عہدوں سے استعفیٰ دئیے گئے اس طرح اب تک استعفیٰ دینے والے وزراء ،مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد 5ہوگئی ہے تمام کا تعلق مسلم لیگ (ن)سے ہے، بلکہ وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والوں کو مزید حوصلہ ملا ہے بلکہ ن لیگ اور اس کے اتحادیوں کی تشویش میں بھی اضافہ ہواہے وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد بلوچستان میں نہ صرف سیاسی محاذ آرائی اور سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہواہے بلکہ اگر مگر کی غیر یقینی صورتحال بھی پیدا ہوگئی ہے۔

جمعہ کے روز ن لیگ کی جانب سے جمعیت علماء اسلام (ف) کو تین وزارتوں کی پیش کش اور انہیں عدم اعتماد کیلئے ووٹ سے روکنے کیلئے کوششوں کی بھی افواہیں دن بھر گردش کرتی رہی بلکہ دوروز قبل مشیر ایکسائز بنائے جانے والے عبدالماجد ابڑو کے استعفیٰ نے بھی غیر یقینی کی صورتحال کو مزید بڑھایاہے ۔یاد رہے کہ اس سے قبل وزیراعلی نواب ثنااللہ زہری کے مشیر پرنس احمد علی احمدزئی نے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو بھجوایا جب کہ ان سے قبل وزیر ماہی گیری میر سرفراز چاکر ڈومکی نے اپنا استعفیٰ پیش کیا تھا۔علاوہ ازیں وزیراعلی بلوچستان ثنااللہ زہری نے اپنے مشیر کو عہدے سے برخاست بھی کیا۔سرکاری ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا اجلاس 9 جنوری کو ہوگا ۔خیال رہے کہ وزیراعلی بلوچستان کے خلاف گزشتہ روز رکن اسمبلی عبدالقدوس بزنجو اور سید آغا رضا کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی جس پر 14 اراکین اسمبلی کے دستخط تھے۔وزیراعلی بلوچستان پر عدم اعتماد کی تحریک پر دستخط کرنے والے اراکین میں میر قدوس بزنجو، میر کریم نوشیروانی، آغا رضا، میر خالد لانگو، نوابزادہ طارق مگسی، ڈاکٹر رقیہ سعید ہاشمی، سرداراخترجان مینگل ،زمرک خان اچکزئی، حسن بانو، شاہدہ رؤف، خلیل الرحمان دمڑ، عبدالمالک کاکڑ اور امان اللہ نوتیزئی شامل ہیں۔

موضوعات:



کالم



شیطان کے ایجنٹ


’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)

آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…