اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر صحافی و تجزیہ کار رؤف کلاسرا نے ٹرمپ کے تازہ غصہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ بہت سے امریکن جنرل کو ہم سن رہے تھے، یہاں پروگرام بھی کیے گئے ہیں لیکن پاکستان میں کسی نے انہیں سنجیدہ نہیں لیا، ماحول پہلے سے ہی تیار ہو رہا تھا، رؤف کلاسرا نے کہا کہ میرے پاس تازہ ترین معلومات یہ ہیں کہ جب پاکستان نے حقانی گروپ کے خلاف آپریشن کیا تھا جس میں دو کینیڈین شہری اور بچوں کو
بازیاب کرایاگیا تھا، جس پر بعد میں کہا گیا تھا کہ امریکن انٹیلی جنس کی معلومات پر پاکستانی ٹروپس گئے اور آپریشن کیا، اس آپریشن میں ایک افغانی پکڑا گیا تھا اس کا تعلق حقانی گروپ سے تھا، امریکن اس افغانی تک رسائی چاہ رہے تھے، پاکستان نے ان کو اس تک رسائی نہیں دی، پاکستانی حکام نے امریکہ کو حقانی گروپ کے اس افغانی تک رسائی نہیں دی، دوسری بات یہ ہے کہ اس کے بعد ایک میٹنگ ہوئی جس میں کہا گیا کہ یہ تو ہمیں حقانی گروپ کے اس شخص تک رسائی نہیں دے رہے، یہ تعاون نہیں کر رہے، اس میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے 225 ملین ڈالر روک لیے جائیں، جو روک لیے گئے ہیں، اس کے علاوہ حسین حقانی نے ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ آپ کو پاکستان باتوں سے سنجیدہ نہیں لے گا، پاکستان کو 225 ملین ڈالر روکنے سے کچھ نہیں ہو گا، پاکستان سے اور کچھ حاصل کرناہے تو پاکستان کے خلاف کوئی سخت اقدام کریں، سینئر صحافی رؤف کلاسرا مزید کہا کہ ہم پر بہت زیادہ قرضہ بڑھ گیا ہے، پانچ سو ملین ڈالر لینے کے لیے اسحاق ڈار نے دو سال قبل یورو بانڈ جا کر لیے تھے تو انہوں نے 8.5 فیصد پر لیے، اس کا مطلب یہ ہے کہ 500 ملین ڈالر کے قرضے پر دس سال بعد ہمیں 410 ملین ڈالر سود کے ساتھ دینے ہیں، تقریباً ڈبل واپس کرنے ہیں۔ حسین حقانی نے ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ آپ کو پاکستان باتوں سے سنجیدہ نہیں لے گا، پاکستان کو 225 ملین ڈالر روکنے سے کچھ نہیں ہو گا، پاکستان سے اور کچھ حاصل کرناہے تو پاکستان کے خلاف کوئی سخت اقدام کریں