پیر‬‮ ، 25 اگست‬‮ 2025 

پروٹین سے بھر پور پھلیاں تیار

datetime 23  اپریل‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (نیوز ڈیسک )دنیا کے کئی ممالک غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بالخصوص تیسری دنیا کے باشندوں کی اکثریت کو ضروری اور معیاری خوراک میسر نہیں ہے۔اسی سلسلے میں سائنس دانوں نے پھلیوں کی تیس نئی اقسام کا کام یاب تجربہ کیا ہے، جو انتہائی گرم موسم میں بھی کاشت کی جا سکتی ہیں۔ پروٹین سے بھرپور یہ پھلیاں غریب ترین ممالک کو غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد دیں گی۔
ماہرین کے مطابق غذائی اجناس سے متعلق ان کا یہ تجربہ نہایت اہم اور سود مند ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خوراک کی قلت نے ترقی پذیر ممالک میں چالیس کروڑ انسانوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ یہ پھلیاں توانائی سے بھرپور ہوں گی اور بڑی حد تک گوشت کی کمی کو پورا کریں گی تاہم سائنس دانوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ موسمی تغیرات کے نتیجے میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے باعث 2050 تک ان پھلیوں کی کاشت کے لیے موزوں رقبہ سکڑ کر نصف رہ جائے گا، جس سے ایک مرتبہ غذائی قلت کا مسئلہ جنم لے سکتا ہے۔ پھلیوں یا بینز پر تحقیق کرنے والے ماہر سائنس داں اسٹیو بیبے کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں چھوٹے رقبے پر کاشت کاری کرنے والے کسان سازگار ماحول ہونے کے باوجود پہلے ہی کئی مشکلات کا شکار ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں کاشت کار مزید پریشانی سے دوچار ہوسکتا ہے۔ اس کا اثر لاکھوں انسانوں پر پڑے گا جو کم خوراکی کا شکار ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا کو اس مسئلے کی طرف توجہ دینا ہو گی۔ نئی پھلیوں کی بہت سی اقسام خشک سالی اور بہت زیادہ درجہ حرارت میں بھی کاشت کی جا سکیں گی۔ انہوں نے کہا کہ ان اقسام کو مختلف پھلیوں کی کراس بریڈنگ کے عمل سے تیار کیا گیا ہے اور ان میں جینیاتی تبدیلی کا کوئی عمل کارفرما نہیں ہے۔ ان تیس نئی اقسام کے تجربے کے لیے سائنس دانوں نے پھلیوں میں پائے جانے والے ہزاروں مختلف اجزا کا تجزیہ کیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ کس طرح کی ان کے ذریعے انتہائی گرم ماحول میں بھی کام یابی سے کاشت کی جانے والی پھلی حاصل کی جا سکتی ہے۔
CGIAR نامی ریسرچ گروپ نے اس کام یاب تجربے کے بعد بتایا ہے کہ ان نئی پھلیوں میں آئرن کی بہت زیادہ مقدار بھی پائی جاتی ہے، جس سے غذائیت کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔
محققین کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں اور درجہحرارت میں اضافے کے سبب آئندہ لاطینی امریکا اور زیریں صحارا کے خطے کے یوگنڈا، ہیٹی، برازیل، ہنڈوراس، کینیا، تنزانیہ اور عوامی جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں پھلیوں کی کاشت کاری کا سلسلہ شدید متاثر ہو گا۔ زرعی سائنس کے ماہرین کے مطابق بدلتے ہوئے موسموں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے لیے کسان کو تیار کرنا ہو گا۔
اس طرح وسیع رقبے پر اور بہتر فصل حاصل کی جاسکتی ہے جو غذائی قلت کو دور کرے گی۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطاہرین نے پھلیوں کی ان نئی اقسام کے کام یاب تجربے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ زراعت میں اختراع اور تجربات انتہائی ضروری ہیں جو دنیا بھر میں کم خوراکی کے مسئلے پر قابو پانے میں مدد دیں گے۔



کالم



ریکوڈک


’’تمہارا حلق سونے کی کان ہے لیکن تم سڑک پر بھیک…

خوشی کا پہلا میوزیم

ڈاکٹر گونتھروان ہیگنز (Gunther Von Hagens) نیدر لینڈ سے…

اور پھر سب کھڑے ہو گئے

خاتون ایوارڈ لے کر پلٹی تو ہال میں موجود دو خواتین…

وین لو۔۔ژی تھرون

وین لو نیدر لینڈ کا چھوٹا سا خاموش قصبہ ہے‘ جرمنی…

شیلا کے ساتھ دو گھنٹے

شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…