اسلام آباد(آن لائن) مقامی ریفائنریز کی متوقع بندش نے پیٹرولیم مصنوعات کی قلت کے حوالے سے خطرے کی گھنٹی بجادی، جس کے باعث متعلقہ مقامی کمپنیاں سفری اور سیکیورٹی طیاروں کے لیے مطلوبہ تیل فراہم کرنے میں ناکام نظر آرہی ہیں۔تین درجن سے زائد ریفائنریز اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی کمیٹی آئل کمپنیز ایڈوائزی کونسل (او سی اے سی) نے پیٹرولیم ڈویژن کو کہا ہے کہ
ریفائنریز کو مسلسل پیداوار کم کرنے پر مجبور کیا جارہا تھا جس کے بعد اب وہ مکمل بندش کے نقطہ پر پہنچ چکی ہیں اور یہ معاملہ جیٹ فیول پر اثر انداز ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم کی صنعت اکتوبر میں تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کی بندش کے بعد سے اور گذشتہ 6 ہفتوں سے مستحکم ہونے کی جدوجہد کر رہی ہے۔سیکریٹری پیٹرولیم سلطان سکندر راجا جو ان دنوں آئل کمپنیوں کے بورڈ اجلاس میں شرکت کے لیے دبئی اور سنگاپور گئے ہیں، کو او اے سی اے کی جانب سے خط لکھا گیا، جس میں کہا گیا کہ تمام ہوائی اڈوں کو جیٹ ایندھن کی کمی کا سامنا ہے جبکہ اس کے علاوہ کمی تمام پیٹرولیم منصوعات کی فراہمی میں گہرا اثر ڈال رہی ہے اور یہ اثر خاص طور پر ہوائی اڈوں کے لیے جے پی 1 اور ایئر فورس کے لیے جے پی 8 کی موجودگی پر پڑ رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سب سے بڑے ایندھن فراہم کرنے والے ریاستی ادارے پاکستان اسٹیٹ آئل ( پی ایس او) نے اپنے ایئر کرافٹ آپریٹرز کو اضافی ایندھن کے ساتھ اڑنے کا مشورہ دیا ہے، ساتھ ہی پاکستان میں ایندھن کو دوبارہ بھروانے کے لیے کم سے کم انحصار کرنے کو کہا ہے۔اس کے علاوہ پی ایس او نے ہنگامی بنیادوں پر جیٹ ایندھن کے دو جہازوں کا حکم دیا ہے لیکن ان کی آمد رواں ہفتے کے اختتام تک متوقع ہے۔ ہفتے کے اختتام پر او سی اے سی نے رپورٹ کیا کہ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ ( پی آر ایل) نے مشینوں کے کام کرنے کے لیے فرنس آئل کو ری سائیکل کرنے پر
مجبور کیا جس کا اثر کراچی ایئرپورٹ کے منتقل کیے جناے والے جیٹ ایندھن پر پڑے گا۔پی ایس اور نے گزشتہ ہفتے حکومت کو بتایا تھا کہ ہوائی اڈے لاہور، اسلام آباد، سیالکوٹ، ملتان، فیصل آباد اور پشاور میں ایندھن کی مقدار خشک سطح پر ہے تاہم ایوی ایشن حکام کو نوٹم (نوٹس ٹو ایئرمین) کے اعلان پر مجبور نہیں کرسکتے۔نوٹم (نوٹس ٹو ایئرمین) ایک ایسی صورتحال ہوتی ہے جس میں جہاز کے پائلٹ کو فلائٹ کے حوالے سے ممکنہ خطرات یا ایسی مقام جو فلائٹ پر اثر انداز کرسکتی ہے
کہ بارے میں آگاہی جاری کی جاتی ہے۔پیٹرولیم ڈویژن کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ تیل کی صنعت سے مشاورت کی کوششوں کے باوجود پاور ڈویڑن فرنس آئل کی کھپت کے ساتھ آگے نہیں بڑھا۔پاور ڈویڑن کے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ موسم سرما میں بجلی کی طلب میں کمی ہوتی ہے اور اقتصادی اہداف کے لیے ہائیڈرو، قدرتی گیس،
درآمد شدہ ری گیسی فائڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) نیوکلیئر اور کوئلے کے سستے پاور پلانٹس کا استعمال کیا جارہا ہے۔پیٹرولیم ڈویڑن کے اہکار نے کہا کہ مقامی فرنس آئل بہت کم یا بالکل استعمال نہیں ہورہا اور جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، مارکیٹ میں مصنوعات کی قلت کا سامنا رہے گا۔انہوں نے کہا کہ جب ریفائنری چلتی ہے تو وہ ایل پی جی، پیٹرول،
مٹی کا تیل، ڈیزل، جیٹ فیول ( جے پی 1 اور جے پی 8) اور بقایا فرنس آئل ( آر ایف او) کی تمام مصنوعات کی مکمل رینج پیدا ہوتی ہے۔تاہم جب آر ایف او استعمال نہیں کیا جارہا تو اسٹوریج مکمل بھری ہوئی ہیں جو ریفائنریز کو اپنی پیدوار کو کم سے کم کرنے پر مجبور کررہی ہے۔او سی اے سی نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاور ڈویژن کے سینئر حکام سے مسلسل ملاقاتوں اور بہترین کوششوں کے باوجود ریفائنریزز کو چلانے کے بارے میں کوئی پیش
رفت نہیں ہوئی۔پی آر ایل نے رپورٹ میں کہا کہ فرنس آئل کی ترسیل کی شرح میں یومیہ 400 سے 500 ٹن کی کم ترسیل نے خام تیل کے ٹینکوں میں آر ایف او ری سائیکل کرنے پرمجبور کیا۔او سی اے سی نے کہا کہ دیگر ریفائنریز کو بھی آر ایف او کو بھی ذخائر میں کمی کا سامنا ہے اور این آر ایل سمیت دیگر ذیلی ماحاصل پر انحصار کررہے ہیں، جو کراچی ایئر پورٹ اور ایئر فورس سے جیٹ ایندھن کے لیے کیے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ افسوس ہے کہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے بدھ کو حکم دیا گیا تھا کہ پاور اور پیٹرولیم ڈویڑن کے درمیان قریبی تعلقات قائم کرنے کے لیے اس مسئلے کا حل نکالا جائے، تاہم اے سی اے سی کے توانائی ڈویژن اور پیٹرولیم ڈویڑن کے درمیان روزانہ ملاقاتوں کے باوجود ہم پیٹرولیم مصنوعات میں قلت کے معاملے پر کوئی اتفاق نہیں دیکھ رہے۔حکام نے واضح کیا
کہ تمام ریفائنریز 30 فیصد جبکہ پی ایس او 66 فیصد فرنس آئل فراہم کرنے کا ذمہ دار ہے۔تیل کی صنعتوں نے مشورہ دیا کہ پاور سیکٹر کو توانائی کی فراہمی کی منصوبہ بندی کے لیے ایک مناسب فورم تشکیل دیا گیا تھا اور یہ حقیقت ہے کہ رواں سال میں دوسری مرتبہ سپلائی کے بحران کا سامنا ہوا، جس کی وجہ نیشنل پاور کنٹرول اور پاور سیکٹر کے درمیان ناقص منصوبہ بندی اور تعاون کی کمی ہے،
جس نے پورے ملک میں تیل کی فراہمی کو خطرات سے دو چار کردیا ہے۔او سی اے سی نے کہا کہ اس فورم میں این پی سی سی ، واپڈا، توانائی کی وزارت، پاور اور پیٹرولیم ڈویڑن اور پی ایس او کے نمائندے شامل ہونے چاہیے اور انہیں یہ ٹاسک دیا جائے کہ وہ آئندہ تین ماہ کے لیے ملک میں توانائی کی فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کریں، اس اقدام سے موجودہ فیصلہ سازی کی صورتحال ختم ہوگی اور سپلائی کو تحفظ ملے گا۔حکام نے کہا کہ اس کے مستقل حل کے لیے وزارتوں اور
تقسیم کاروں سمیت تمام متعلقہ ادارے متفق ہو کر ایک مناسب منصوبہ بنا سکتے ہیں جس میں اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ در آمد شدہ آر ایف او کو مقامی ریفائنری کی پیداوار کے ساتھ کس طرح استعمال کیا جائے۔ذرائع کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے دفاعی حکام نے مسلسل خط لکھے اور جس میں ایئرفورس کو فراہم ہونے والے فیول کی مطلوبہ مقدار کے حوالے نظر رکھنے کو کہا گیا، ساتھ ہی دفاعی حکام نے گزشتہ ہفتے ہونے والے مصنوعات کے اجلاس میں صورتحال پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار اور سنگین تنائج کے بارے میں خبردار بھی کیا تھا۔