کراچی(این این آئی) سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس میں مجرموں کو دی جانے والی سزائیں کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس کو از سر نو سماعت کے لیے سیشن عدالت بھیجنے کی ہدایت کردی۔سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی اپیلوں پر سماعت کی۔سندھ ہائیکورٹ میں سزائے موت کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں شاہ رخ جتوئی کے وکیل ایڈووکیٹ فاروق ایچ نائیک نے دلائل پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل جرم کے وقت نابالغ تھے جس کی بنا پر ان پر انسداد دہشت گردی کا قانون لاگو نہیں ہوتا۔
استدعا ہے کہ کیس کی دوبارہ سماعت ایک ملزم کی حیثیت سے عام عدالت میں کی جائے ۔فاروق ایچ نائیک نے عدالت کو بتایا کہ مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کی عمر 18 سال سے کم ہونے کی بنا پر ان کا مقدمہ جیو نائل قانون کے تحت چلایا جانا چاہیے تھا جبکہ ان کا مقدمہ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں سنا گیا جو غیر قانونی تھا۔انہوں نے مزید بتایا کہ فریقین کے درمیان صلح نامہ بھی طے پا گیا تھا جس کی پیروی درخواست بھی عدالت میں جمع کرائی جاچکی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس صلح نامے کے مطابق مقتول کے اہل خانہ نے تمام ملزمان کو معاف کردیا تھا۔اس پر سندھ ہائیکورٹ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج سے انکوائری رپورٹ طلب کی گئی جس میں بتایا گیا کہ ذاتی عناد پر جھگڑا ہوا جس پر شاہ زیب کو قتل کیا گیا۔سماعت کے دوران ملزمان کے وکلا ء نے سپریم کورٹ کے 2017 کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی عناد کا جھگڑا دہشت گردی کے زمرے میں نہیں آتا۔جبکہ پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے موقف اختیار کیا کہ مدعی دستبردار ہوچکا ہے جبکہ عدالت نے سوال کیا کہ یہ قتل ذاتی عناد ہے یا دہشت گردی۔جسٹس صلاح الدین پنہور نے کہا کہ مقدمے میں صرف دہشتگردی کے پہلو کا جائزہ لینا باقی ہے۔سندھ ہائی کورٹ نے ملزمان کے اس نکتے کہ ذاتی عناد کا جھگڑا دہشتگردی کے زمرے میں نہیں آتا کو دیکھتے ہوئے معاملہ ٹرائل کے لئے سیشن عدالت کو بھیج دیا۔
عدالت نے قرار دیا کہ مقدمے کی سماعت متعلقہ سیشن عدالت کرے گی اور ماتحت عدالت قتل کے محرکات کا جائزہ بھی لے گی۔کراچی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے جون 2013 میں اس مقدمہ قتل کے مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور نواب سراج علی تالپور کو سزائے موت اور دیگر ملزمان بشمول گھریلو ملازم غلام مرتضی لاشاری اور سجاد علی تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔