صلاح الدین ایوبی کا واقعہ یاد آ گیا۔ عیسائیوں کے ساتھ صلیبی جنگیں ہو رہی ہیں۔ عیسائیوں نے اپنی پوری فوج میدان میں جھونک دی تاکہ ایک ہی ہلہ میں مسلمانوں کو شکست دے دیں۔ مزید برآں کمک کے طور پر ایک بحری بیڑا بھی روانہ کر دیا۔ صلاح الدین ایوبی کو پتہ چلا تو اس کو پریشانی لاحق ہوئی مسلمان تعداد میں تھوڑے ہیں، سازو سامان میں کم ہیں۔ کفار کا مقابلہ ہم کیسے کریں گے؟ صلاح الدین ایوبی بیت المقدس میں جاتے ہیں،
ساری رات رکوع اور سجدہ میں گزار دیتے ہیں، اللہ کے سامنے مناجات کرتے رہتے ہیں۔ فجر کی نماز پڑھ کر باہر نکلے، ایک نیک اور بزرگ آدمی جاتے ہوئے نظر آئے۔ صلاح الدین ایوبی قریب آتے ہیں اور اس بزرگ کو سلام کرکے کہتے ہیں، حضرت معلوم ہوا ہے کہ کفار کا ایک بحری بیڑہ چل پڑا ہے جو مسلمانوں پر حملہ کرے گا، ہمارے پاس ان سے نمٹنے کے لیے فوج نہیں ہے، آپ دعا کریں کہ اللہ تعالٰی مسلمانوں کو فتح عطا فرمائیں۔ وہ صاحب نظر تھے آنکھ اٹھا کر صلاح الدین ایوبی کے چہرے کو دیکھا، اس کی رات کی کیفیات کو بھانپ لیا۔ فرمانے لگے صلاح الدین ایوبی تیرے رات کے آنسوؤں نے دشمن کے بحری بیڑے کو ڈبو دیا ہے۔ واقعی اگلے دن خبر پہنچی کہ دشمن کا بحری بیڑا ڈوب چکا تھا۔ ایک وقت تھا رات کے آخری پہر میں مسلمانوں کے ہاتھ اٹھتے تھے، اللہ تعالٰی دنیا کے جغرافیہ کو بدل دیا کرتے تھے۔ آج اس وقت ہماری آنکھ نہیں کھلتی۔ اس دال ساگ کے مزے نے ہمیں عبادات کے مزے سے محروم کر ڈالا۔ اللہ تعالیٰ مظلوم مسلمانوں پر رحم فرمائے۔ اس مشکل گھڑی میں ہم ان مظلوموں کی کیا مدد کرسکتے ہیں؟
ہم کچھ نہیں کرسکتے تو کم از کم ان کے لیے دعا تو کرسکتے ہیں، ان کے درد کو محسوس تو کر سکتے ہیں۔ رب العالمین کی بارگاہ میں چار آنسو بہا کر، گڑگڑا کر ان کے لیے رحم کی بھیک تو مانگ ہی سکتے ہیں۔ اتنا تو دکھا ہی سکتے ہیں کہ یا اللہ: ہمیں دکھ ہے اپنے مظلوم بہنوں اور بھائیوں کی بربادی کا۔۔ اللہ تعالی سے تڑپ تڑپ کر دعائیں تو مانگ ہی سکتے ہیں، اللہ تعالیٰ بہت غفور الرحیم ہیں۔ امید ہے ہم مجبور عوام کی سن لیں گے۔ ہمارے پاس طاقت نہیں، اقتدار نہیں، مگر دعاؤں کا ہتھیار تو ہے۔ ہمیں چپ کرکے بے حِس ہو کر نہیں بیٹھنا چاہیے…. ہمیں اپنی دعاؤں سے ضرور بالضرور انکی مدد کرنی چاہیے۔ یا اللہ! روہنگیا کے مظلوم مسلمانوں کی حالتِ زار پر رحم فرما دے۔ انھیں ظلم و جبر کی ان تاریک راہوں سے نکال دے۔ انھیں چمکتی دمکتی روشن صبحیں دکھا دے۔