لاہور ( این این آئی)پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے ختم نبوت کے حوالے سے بیان حلفی کو اقرار نامہ سے بدلنے کے معاملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کے نزدیک بیان حلفی اور اقرار نامے کے مطلب اور مفہوم میں کوئی فرق نہیں تو پھر اس میں تبدیلی لانے کی ضرورت محسوس کیوں کی گئی؟،بیان حلفی کو ہی برقرار کیوں نہیں
رہنے دیا گیا؟بیان حلفی کا درجہ ایک شہادت کا ہے،اس کی ایک قانونی حیثیت ہے کوئی بھی شخص کسی چھوٹی بڑی عدالت کے سامنے جب گواہی دیتا ہے تو اس سے پہلے وہ بیان حلفی دیتا ہے پھر اس کے بعد بات کرتا ہے مگر ایک انتہائی اہم مسئلہ کے اوپر بیان حلفی کے الفاظ حذف کر دئیے گئے کہ محض اتفاق نہیں ہے،حکمران اس مجرمانہ فعل سے پیچھے ہٹ جائیں اور پرانے حلف نامے کو بحال کر دیں یا پھر تبدیلی لانے کا سبب بیان کریں ؟ اس تبدیلی میں ملوث عناصر کی کڑی گرفت ہونی چاہیے اور محرکات پارلیمنٹ کے سامنے لائے جائیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان عوامی تحریک و تحریک منہاج القرآن کے علماء و مشائخ سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ یہ پاناما لیکس کا فیصلہ نہیں جس کی حکمران من پسند تشریح کر کے عوام کو گمراہ کر سکتے ہیں ، کسی خائن اور اس کے حواریوں کو یہ جرأت نہیں دی جا سکتی کہ وہ عددی اکثریت کے بل بوتے پر حساس نوعیت کے وہ قانون بنائیں یاختم کریں جن پر اجماع امت ہے۔انہوں نے کہا کہ الیکشنز ایکٹ 2017 ء میں امانت، دیانت ،شرافت ،صداقت کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی اور چن چن وہ تمام شقیں اور الفاظ خذف کر دئیے گئے جوعوامی نمائندے سے اچھے کردار
اور شفافیت کا تقاضے کرتے ہیں۔حکمرانوں نے شخصی مفاد کو تحفظ دینے کیلئے آئین کی روح اور اسلامی نظریہ حیات کو مسخ کیا اور انتہا یہ ہے کہ ختم نبوت کے حوالے سے بیان حلفی کو بھی ختم کر دیا گیا اور اس کے نیچے ایک خصوصی نوٹ دیا گیا ہے کہ یہ ڈیکلریشن صرف مسلمانوں کیلئے ہے۔ سوال یہ ہے کہ ختم نبوت پر یقین رکھنے والوں کو اس کے اقرار کا پابند کیوں بنایا گیا ؟
یہ بیان حلفی تو ان کیلئے تھا جو ختم نبوت کا عقیدہ نہیں رکھتے؟۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر سے کسی طبقے، جماعت، فرد نے اس تبدیلی کا مطالبہ نہیں کیا تھا نہ ہی الیکٹرانک میڈیا یا پرنٹ میڈیا پر کسی نے اسے بدلنے کا مطالبہ کیا اورنہ ہی پاناما کیس کے فیصلے میں میاں نواز شریف یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو اس حوالے سے کسی
مشکل کا سامنا ہے اور نہ ہی اس کا تذکرہ شریف خاندان کے خلاف 24 ہزار صفحات پر مشتمل کرپشن کے ریفرنسز میں ہے تو پھر وہ کون سا دبائو اور ضرورت تھی جس کے باعث بیان حلفی کو اقرار نامہ کے ساتھ بدلہ گیا اور اس کے نیچے ایک خصوصی نوٹ دیا گیا؟انہوں نے کہا کہ حکومتی وزراء ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ بول رہے ہیںکہ کچھ بھی نہیں بدلا،یہ سراسر کذب بیانی اور
بدکرداری ہے ۔حکمران بتائیں کہ ان کے گرنے اور جھوٹ بولنے کی کوئی حد یاسطح بھی ہے یانہیں؟۔انہوں نے کہا کہ خائن گروہ اس ترمیم کو فی الفور واپس لے لے اور پرانے بیان حلفی کو بحال کر دیے یا اس تبدیلی کی وجہ بتائے۔