جب انسان اندر سے مرجاتا ہےوہ حد سے زیادہ خوش اخلاق ہوجاتا ہےجب تم کسی میں کوئی عیب دیکھو تو اسے اپنے اندر تلاش کرو اگر اسے اپنے اندر پاؤ تو اسے نکال دو۔ یہ حقیقی تبلیغ ہے۔ اشفاق احمدمیں جانتا ہوں کہ میں کچھ تو ہوں کیونکہ میرا رب کوئی بھی چیز بے کار نہیں بناتا۔
اشفاق احمدبابا کہتے ہیں، ’’دکھ تو روحانیت کی سیڑھی ہے، ان سے مت گھبراؤ، خوشی مناؤ کہ اس مہربان رب نے تمہیں چن لیا ۔ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے سے بڑی بڑی محبتیں جنم لیتی ہیں۔ آپ کا ایک لفط زخم بھی لگا سکتا ہے اور مرہم بھی بنسکتا ہے ، اختیار آپ کے پاس ہے ۔ زندگی کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ وہ ہم سے صرف ایک بار روٹھتی ہے ۔کچھ لوگ خطوں کی طرح ہوتے ہیں کہ جنہیں کچھ لوگ گھر کی طرح ہوتے ہیں ۔ وہ چاہے کتنا بھی دور کیوں نہ ہوں ، دل ان کی روح میں سمٹ جانے کو بے چین رہتا ہے ۔ سنجیدہ بنو لیکن تلخ مزاج نہیں ۔ بہادر بنو مگر جلد باز نہیں ۔ حلیم بنو مگر غلامی کی حد تک نہ پہنچو ۔پیار ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے آگے ہر دیوار ٹکڑے ہو جاتی ہے ۔ پرانا تجربہ نئی تعمیر کی بنیاد ہوتا ہے ۔ صابر بنو مگر کمینہ پن اختیار نہ کرو ۔ مستقبل مزاج بنو لیکن ضدی نہ بنو ۔جب محبت کامل ہو جاۓ تو ادب کی شرط ختم ہو جاتی ہے ۔ ٹھوکر وہی کھاتا ہے جو راستے کے پتھر نہیں ہٹاتا ۔معاشرہ پر تمہارا اس سے بڑا احسان اور کوئی نہیں ہوگا کہ تم خود سنور جاؤ ۔ ہر عمل کے اندر اس کا انجام یوں چھپا ہوتا ہے جیسے کسی بیچ میں کوئی درخت ۔ ناکامی کے اسباب ہمیشہ آدمی کے اندر ہوتے ہیں مگر وہ انہیں دوسروں میں تلاش کرتا ہے ۔ انسان بہت کچھ تقدیر پر جبکہ تقدیر بہت کچھ انسان پر چھوڑتی ہے