جمعے کا دن تھا‘ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے ‘ منبر پر بیٹھے اور خطبہ دینا شروع کر دیا جوں ہی آپ نے خطبہ شروع کیا مسجد کے ایک کونے سے زور زور سے رونے کی آواز آنے لگی‘ صحابہؓ حیران پریشان اس طرف دیکھنے لگے‘ کوئی صحابی بھی نہیں رو رہا تھا‘ سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور حیران تھے کہ یہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے‘
سب اللہ کے نبی کی طرف متوجہ ہوئے اور حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے اس آواز کے متعلق دریافت فرمایا‘حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور پر مسکراہٹ پھیل گئی اور آپ نے فرمایا یہ کھجور کا تنا رو رہا ہے۔مسجد نبوی کی چھت کھجور کے تنوں پر بنائی گئی تھی‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دیتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک تنے کے سہارے کھڑے ہوجاتے تھے ، کبھی کبھی خطبہ لمبا ہوجاتاتھا،اس لیے ایک انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سہولت کے لیے کہاکہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوادیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے تمہاری مرضی‘انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیا‘ جوں ہی سرکاردوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آغوش میں لیا تو وہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔
(بخاری مذکورہ احادیث سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے بغیر ہمارے ایمان کی تکمیل ممکن نہیں ہے۔لفظ حب ، محبت اور اس طرح کے الفاظ صرف شہوانی خواہشات اوربرے معنوں میں نہیں آتے بلکہ اصلاً یہ اعلیٰ و پاکیزہ معانی کی ترجمانی کرتے ہیں۔