واشنگٹن(این این آئی) پاکستان اور افغانستان کا گذشتہ ہفتے دورہ کرنے والے اہم امریکی سینیٹرز افغان جنگ پر اختلافات کا شکار ہیں، کچھ کا ماننا ہے کہ مذاکرات سے قبل فوجی فتح ضروری ہے جبکہ دیگر اس مسئلے کا سیاسی حل چاہتے ہیں۔تاہم امریکی میڈیا میں شائع ہونے والے بیان میں ایک خطرے کی نشاندہی کی گئی ہے، جس کے مطابق پاکستان کو طالبان پر مزید دباؤ ڈالنا ہوگا تاکہ وہ سیاسی حل کو قبول کریں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق پاکستان اور افغانستان کا کرنے والے امریکی سینیٹرز کے وفد کی قیادت کرنے والے سینیٹر جان میک کین کا کہنا تھا کہ دورے سے انہیں معلوم ہوا ہے کہ افغان جنگ میں کامیابی کے لیے امریکا کو نئی حکمت عملی پر عمل کرنا ہوگا تاکہ ’دنیا کی ایک انتہائی طاقت ور ترین قوم اس کشیدگی میں کامیاب ہوسکے‘۔تاہم مذکورہ وفد میں شامل دو ڈیموکریٹس میں سے ایک سینیٹر ایلزبتھ وارن نے اس معاملے کے سیاسی حل پر توجہ مرکوز کرنے پر زور دیا اور ٹرمپ انتظامیہ پر جنگ میں کامیابی کے لیے سیاسی مذاکرات کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا، ساتھ ہی انہوں نے پاکستان پر مزید اقدامات کے لیے بھی زور دیا۔انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں کہا کہ تاہم انہوں نے مثبت اقدامات کیے ہیں، ہم نے پاکستانی قیادت کو کہا ہے کہ وہ خطے میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے مزید اقدامات کریں۔انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’میں نے پاکستانی آرمی چیف سے ملاقات کی، جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ خطے میں پاکستان کے اہم کردار کے حوالے سے بات چیت کی‘۔ انہوں نے امریکی وفد کے ساتھ 3 جولائی کو جنوبی وزیرستان کے دورے پر بات کی۔ان کا کہنا تھا کہ ’جنوبی وزیرستان میں آرمی اور مقامی رہنماؤں نے ہمیں دکھایا کہ کیسے یو ایس ایڈ ڈویلپمنٹ پروجیکٹس کے ذریعے لوگوں کا معیار زندگی تبدیل کیا جارہا ہے۔ادھر ریپبلکن کے صدارتی امیدوار سینیٹر لینڈسے نے بھی جان میک کین کے اس مطالبے کی حمایت کی ہے۔انہوں نے کہا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد میں کمی کی پرانی حکمت عملی کام نہیں کررہی کیونکہ اس سے طالبان کو کوشکست دینے پر توجہ مرکوز نہیں ہوتی۔