تحریر:جاوید چودھری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خان لیاقت علی خان کے پاس جموں کا ایک کشمیری باورچی ہوتا تھا جس کا اصل نام یوسف پانڈے تھا لیکن اسے سب صرف ’’پانڈے‘‘ کہہ کر بلاتے تھے۔ یہ باورچی زندگی بھر قائد ملت کی خدمت کرتا رہا۔ جب خان صاحب طالب علم تھے تو یہ ان کے ساتھ ہاسٹلوں میں رہا۔ بعد ازاں جب وہ عملی سیاست میں آئے تو بھی یہ ان کی مسلسل خدمت کرتا رہا۔
پاکستان بننے کے بعد اس نے جموں واپس جانے کی بجائے خان صاحب کے خاندان کے ساتھ کراچی آنے کو فوقیت دی۔ ’’پانڈے‘‘ نہ صرف خان صاحب کی پسندیدہ ڈشوں کے بارے میں جانتا تھا بلکہ اسے یہ بھی علم تھا کہ صاحب کس وقت کیا پسند کرتے ہیں اور کتنی مقدار میں۔ لیاقت علی خان اپنے باورچی کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے تھے۔ صبح ناشتہ گھر بھر کے ساتھ کرتے، دوپہر کا کھانا پانڈے سائیکل پر ان کے دفتر پہنچاتا اور رات کو اگر وہ جلدی فارغ ہو جاتے تو گھر آ کر کھانا کھا لیتے، بصورت دیگر مختلف تقریبات میں ہی تھوڑا بہت کھا لیا کرتے تھے۔ ہاں البتہ وہ جتنی دیر گھر رہتے پانڈے سے بار بار قہوہ طلب کرتے تھے اور وہ ان کا اس قدر مزاج آشنا تھا کہ جوں ہی کال بیل بجتی وہ قہوے سے لبالب کیتلی، چینی کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں اور شکر دان ٹرے میں سجا کر حاضر ہو جاتا۔ خان صاحب اس ساز و سامان کو دیکھ کر ہر بار پوچھتے پانڈے تمہیں کیسے علم ہوا میں قہوہ پینا چاہتا ہوں۔ پانڈے کا ایک ہی جواب ہوتا تھا۔ ’’حضور ساری زندگی آپ کی چاکری میں گزری اگر اب بھی آپ کی عادتوں کا پتہ نہ چلے تو لعنت ہو ہم پر۔‘‘ خان لیاقت علی کے قتل کے بعد بھی پانڈے ان کے خاندان کے ساتھ ہی رہا بلکہ جب بیگم رعنا لیاقت علی خان سفیر بن کر ملک سے باہر گئیں تو پانڈے کو اپنے ساتھ روم لے گئیں۔
اس مضمون کا محرک بہت دلچسپ تھا، 1996ء میں اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی اس خبر میں انکشاف ہوا۔ ’’وزیراعظم نے وزیراعظم ہاؤس کا چیف شیف معطل کر دیا۔‘‘ تفصیلات میں لکھا تھا۔ ’’وزیراعظم نے اپنے لیے سویٹ ڈش تیار کرائی، یہ ڈش جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہیں ایمرجنسی میں ایک میٹنگ میں جانا پڑ گیا، انہوں نے جاتے جاتے سویٹ ڈش فریج میں رکھوا دی۔
رات گئے وزیراعظم واپس آئیں تو انہوں نے سویٹ ڈش لانے کا حکم دیا، وزیراعظم ہاؤس کا عملہ کچن میں پہنچا تو یہ دیکھ کر پریشان ہو گیا، وزیراعظم کی سویٹ ڈش فریج سے چوری ہو چکی ہے۔ اس ’’چوری‘‘ کی اطلاع جب وزیراعظم تک پہنچی تو انہوں نے چیف شیف کو معطل کر دیا۔ یہ خبر بہت دلچسپ تھی، میں نے جونہی یہ خبر پڑھی، میں نے سوچا پاکستان کے سابق اور موجودہ حکمرانوں کے دستر خوان ایک دلچسپ موضوع ہے اگر اس پر تحقیق کی جائے اور اس تحقیق کی بنیاد پر ایک طویل فیچر لکھا جائے تو قارئین اس میں دلچسپی لیں گے۔