علماء میں سے ایک، ایک شہزادے کی تربیت کرتا تھا۔ اسے بے پرواہی سے مارتا اور بے پناہ ظلم کیا کرتا تھا. ایک مرتبہ بیٹے نے نڈھال ہو کر اپنے باپ سے شکایت کی اور اپنے دکھتے جسم سے لباس ہٹا دیا. باپ کے دل کو بہت تکلیف ہوئی.اس نے استاد کو بلایا اور کہا!
تم عام رعایا کے بیٹوں سے اس قدر سرزنش اور ظلم کا سلوک روا نہیں رکھتے جس قدر میرے بیٹے سے رکھتے ہو؟ اس کی کیا وجہ ہے؟اس نے کہا!وجہ یہ ہے کہ سنجیدہ بات اور اچھا عمل کرنا سب مخلوق کے لئے عام طور پر اور بادشاہوں کے لئے خاص طور پر ضروری ہے۔اس لئے کہ جو قول و فعل ان ( بادشاہوں ) سے سرزد ہوتا ہے یقیناًلوگ اسے اپنا لیتے ہیں جبکہ عام لوگوں کے قول و فعل کو اس قدر اہمیت حاصل نہیں ہوتی۔اگر کوئی غریب آدمی ایک سو ناپسندیدہ باتیں کرے تو اس کے ساتھی سو میں سے ایک بھی نہیں جانتے. اور اگر کوئی بادشاہ ایک مذاق کرے تو اسے ایک خطے سے دوسرے خطے میں پہنچا دیتے ہیں۔پس واجب ٹھہرا کہ شہزادے کے استاد کو بادشاہوں کے بیٹوں کی اخلاقی شائستگی کے لئے کہ خداوند تعالی ان کی نیک تربیت میں پرورش کرے عوام کی نسبت زیادہ کوشش کرنی چاہیئے۔