ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک بہت باوقار بزرگ میرے ساتھ سفر فرما رہے تھے ‘ ہمارے سفر میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ ہمیں دریا عبور کرنا تھا‘ میں اپنا کرایہ ادا کر کے کشتی میں سوار ہو گیا لیکن اس خوددار بزرگ کے پاس کرایہ دینے کیلئے رقم موجود نہ تھی اور میں جانتا تھا کہ وہ کسی کا احسان لینا بھی کوارا نہ کریں گے‘
ملاحوں نے جب ان بزرگ کو خالی ہاتھ دیکھا تو انہیں کشتی میں سوار کرنے سے انکار کر دیا‘ مجھے اپنے ہم سفر کی اس بے چارگی اور بے بسی پر بہت ترس آیا اور اس دکھ پر میرے آنسو رخسار پر آ گئے لیکن وہ بزرگ ہنسے اور بولے ’’اے سعدی! تو کیوں کف افسوس ملتا ہے‘ جو دریا اس بیڑے کو دوسرے کنارے تک لے جائے گا۔وہ مجھے بھی پار لگا دے گا‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے اپنا مصلی پانی پر بچھا دیا‘ مجھ پر اس منظر کو دیکھ کر ہیبت طاری ہو گئی‘دوسری صبح میں جب دریا کے دوسرے کنارے پر اترا تو وہ بزرگ وہاں پہلے سے موجود تھے‘ انہوں نے فرمایا ’’ اے سعدی! تو اس بات پر حیران مت ہو‘ بس اتنا سمجھ لے کہ تونے کشتی پر بھروسہ کیا‘ اس نے تجھے پار لگا دیا‘ میں نے خدا پر بھروسہ کیا‘ اس نے مجھے بھی پار لگا دیا‘ بس یہی بھروسہ خدا کے خاص بندوں کو بھی ہر مشکل سے باہر نکال لاتا ہے۔یہ معزز اور کراماتی بزرگ ایسے ہیں جن کے آگے دنیا کو روشن کرنے والا سورج ایک ذرے سے بڑھ کر نہیں‘ ان جیسے بزرگان دین کیلئے آگ گلستان بن جاتی ہے اور دریا شق ہو جاتے ہیں‘ سوچ لے کہ اگر بادشاہِ عالم اپنی ذات کی عظمت کا علم بلند کرے تو یہ ساری کائنات خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے۔