حضرت ابن عمرؓ کی زندگی زہد و تقویٰ کا نمونہ تھی، لوگوں کا اس پر اتفاق تھا کہ حضرت عمرؓ کے وقت میں ان جیسے بہت سے لوگ تھے لیکن ابن عمرؓ اپنے زمانہ میں بے نظیر تھے، عام طور پر لوگوں میں آخری عمر میں جب قوی کا انحطاط ہوتا ہے تو زہد وتقویٰ کا میلان ہوتا ہے لیکن حضرت ابن عمرؓ کی پیشانی پر عنفوان شباب ہی میں زہد و ورع کا نور چمکتا تھا۔
جوانان قریش میں آپ کی ذات دنیا کی حرس و ہوس اورنفس کی خواہشوں پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والی ذات تھی، حضرت جابرؓ فرماتے تھے کہ ہم میں سوائے ابن عمرؓ کے کوئی ایسا نہ تھا جس کو دنیاوی دلفریبیوں نے اپنی طرف مائل نہ کیا ہو ، ان کا دامن کبھی دنیا سے آلودہ نہیں ہوا۔ اس سے بڑھ کر ان کے زہد و تقویٰ کی کیا سند ہو سکتی تھی کہ خود زبان رسالت نے ان کو رجل صالح کی سند عطا کی۔ اس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نوعمری کے زمانہ میں اکثر مسجد میں سویا کرتے تھے ایک دفعہ انہوں نے دوزخ کے فرشتوں کو خواب میں دیکھا ،جا کر اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ سے بیان کیا، انہوں نے آنحضرتﷺ سے اس کا تذکرہ کیا، آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ عبداللہ جوان صالح ہے، اگر رات کو نماز (تہجد) پڑھے۔ اس کے بعد وہ اکثر نمازوں میں مشغول رہے اور آخر عمر تک یہی معمول رہا۔ ایک مرتبہ حضرت جابرؓ نے لوگوں سے کہا کہ جو آنحضرتﷺ کے ایسے اصحاب کو دیکھنا چاہتا ہو جن میں آپ کے بعد بھی کوئی تغیر نہیں ہوا تو وہ ابن عمرؓ کو دیکھے ان کے علاوہ ہم میں سے ہر شخص کو حوادث زمانہ نے کچھ نہ کچھ بدل دیا ہے۔