محمد بن فضیل اپنے والد سے اور ان کے والد عباس بن راشد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ ہم حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے ساتھ ایک مقام میں ٹھہرے جب انہوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو ہمیں سفر شروع کرنے کا کہا۔ ہم چلنے لگے۔ چلتے چلتے ہم ایک وادی سے گزر رہے تھے تو ہم نے اچانک راستے کے کنارے پر مرے ہوئے ایک سیاہ رنگ کے سانپ کو دیکھا
حضرت عمرؒ اپنی سواری سے نیچے اترے اور گڑھا کھود کر اس سانپ کو مٹی میں دفن کر دیا۔ پھر آپ اپنی سواری پر سوار ہوئے اور سفر شروع کیا۔ ابھی ہم نے سفر شروع کیا ہی تھا کہ ایک ھاتف غیبی کی صدائے بازگشت ہماری ساعتوں سے ٹکرائی ہمیں کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا البتہ ایک کہنے والے کی یہ بات سنائی دے رہی تھی وہ کہہ رہا تھا ’’اے امیرالمومنین! آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خوشخبری مبارک ہو، میں اور میرا یہ ساتھی جس کو آپ نے ابھی ابھی دفن کیا ہے جنات کی اس قوم سے ہیں جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے ’’اور جب ہم نے آپ کی طرف چند ایک جنوں کو پھیر دیا جو قرآن سن رہے تھے‘‘ جب ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تو رسول اللہؐ نے میرے اس ساتھی سے فرمایا تھا ’’تم کسی آب و گیاہ وادی میں مرو گے اور تمہیں اس وقت انسانوں میں سے سب سے افضل انسان دفن کرے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اس قدر زار و قطار روئے کہ عنقریب تھا کہ آپ اپنی سواری سے زمین پر گر جائیں گے۔ آپؒ نے عباس بن راشد سے فرمایا: ’’اے راشد! میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اس واقعہ کی خبر اس وقت کسی کو نہ دینا جب تک مجھے مٹی چھپا نہ لے۔‘‘ یعنی جب تک میرا انتقال نہ ہو جائے اور مجھے قبر میں نہ دفن کر دیا جائے۔