اسلام آباد( آن لائن ) نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) نے ان میڈیا رپورٹس کی تردید کی ہے جس میں وکی لیکس کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ادارے نے امریکا سے اپنا ڈیٹا شیئر کیا تھا۔ترجمان نادرا نے اپنے جاری بیان میں 2011 میں اس وقت کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک کے دور میں امریکا کو پاکستانیوں کا ڈیٹا فراہم کرنے کی رپورٹس کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے کبھی بھی اپنا ڈیٹا کسی ملک کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔بیان میں کہا گیا کہ نادرا کا ایک انتہائی مضبوط اندرونی سکیورٹی کا نظام ہے جو کسی بھی فرد کو ڈیٹا تک رسائی اور اس کو شیئر کرنے سے دور رکھتا ہے۔ترجمان کا کہنا تھا کہ حکام نے کبھی بھی شہریوں کی سکیورٹی پر سمجھوتہ نہیں کیا اور قومی سلامتی کو کبھی بھی داؤ پر نہیں لگایا گیا۔میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے حوالے سے ترجمان نادرا کا کہنا تھا کہ یہ بتانا ضروری ہے کہ اس قسم کی غلط معلومات کے باعث بین الاقوامی بزنس متاثر ہوسکتا ہے، جو نادرا کیلئے مشکلات اور اس کے مد مقابل کو مضبوط کررہا ہے۔ خیال رہے کہ وکی لیکس کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ رحمٰن ملک کے دور میں امریکا کو پاکستان کے قومی شناختی ڈیٹا بیس (نادرا) تک رسائی دی گئی تھی۔واضح رہے کہ اس ٹوئیٹ میں 2011 میں لیک ہونے والی اْس دستاویز کا کچھ حصہ شامل ہے، جس میں امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری جینٹ نیپو لیتانو اور رحمٰن ملک سمیت اعلیٰ پاکستانی حکام کی ملاقاتوں کا ذکر تھا۔جس پر گذشتہ روز سابق وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے وزیراعظم نواز شریف کو خط لکھ کر وکی لیکس الزامات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کردیا تھا۔رپورٹ کو ‘مکمل طور پر بے بنیاد، جھوٹی اور من گھڑت’ قرار دیتے ہوئے سابق وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ‘کسی بھی ملک کو نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ریکارڈز تک رسائی نہیں دی گئی’۔انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بحیثیت وزیر داخلہ انہوں نے ہمیشہ پاکستانی شہریوں کے سفری ریکارڈز تک رسائی کی درخواستیں مسترد کیں۔دوسری جانب وکی لیکس کی 2009 کی کیبل میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ رحمٰن ملک، اْس وقت کے سیکریٹری داخلہ کمال شاہ اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر طارق کھوسہ نے امریکی ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈپارٹمنٹ کے سیکریٹری جینٹ نیپو لیتانو کو کہا تھا کہ ہم پاکستان سے امریکا اور کینیڈا کا سفر کرنے والے افراد کی تفصیلات شیئر کرنے کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں