خشیت الٰہی تمام اعمال صالحہ کی بنیاد ہے، خشیت یہ ہے کہ خدا کے ذکر سے انسان کے قلب میں گداز پیدا ہو قرآن پاک میں صحابہؓ کی تعریف میں ہے ’’اذ ذکر اللہ و جلت قلوبھم‘‘ یعنی جب ان کو خدا یاد آتا ہے تو ان کے دل ہل جاتے ہیں۔
حضرت ابن عمرؓ میں یہ کیفیت بڑی نمایاں تھی، چنانچہ وہ قرآن پاک کی یہ آیت ’’الم یان للذین امنو ان تغشع قلوبھم لذکر اللہ‘‘ ترجمہ: کیا مسلمانوں کے لئے وہ وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد سے ان کے دل میں خشوع پیدا ہو۔ پڑھتے تھے تو بے اختیار رقت طاری ہو تی ایک مرتبہ حضرت عمیرؓ نے ’’فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشھید‘‘ تلاوت کی تو آپ اس قدر روئے کہ داڑھی اور گریبان آنسوؤں سے تر ہو گئے او رپاس بیٹھنے والوں پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ بہ مشکل برداشت کر سکتے، فتنہ کے زمانے میں جب ہر حوصلہ مند اپنی خلافت کا خواب دیکھتا تھا ابن عمرؓ نے اپنے فضل و کمال، زاہد و اتقاء لوگوں میں اپنی ہر دلعزیزی اور مقبولیت بلکہ اکثروں کی خواہش کے باوجود خدا کے خوف سے خلافت کے حصول سے اپنے دامن بچائے رکھا۔ نافعؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ایک دن ابن عمرؓ خانہ کعبہ میں سربسجود ہو کر کہہ رہے تھے کہ خدایا تو خوب جانتا ہے کہ میں نے حصول دنیا میں قریش کی مزاحمت صرف تیرے خوف سے نہیں کی۔