ابن عمرؓ حدیث کی طرح فتاویٰ میں بھی بہت محتاط تھے جب تک کسی مسئلہ کے متعلق پورا یقین نہ ہوتا فتویٰ نہ دیتے حافظ ابن عبدالبر نے استعیاب میں لکھا ہے کہ وہ اپنے فتاویٰ اور اعمال میں نہایت سخت محتاط تھے اور خوب سوچ سمجھ کر کہنے والے اور کرنے والے تھے۔ اگر کوئی مسئلہ علم میں نہ ہوتا تو نہایت صفائی کے ساتھ اپنی لاعلمی ظاہر کر دیتے۔ ایک مرتبہ کسی نے مسئلہ پوچھا تو آپ کو علم نہ تھا فرمایا
’’مجھے معلوم نہیں‘‘ اس کو ان کی صاف بیانی پر تعجب ہوا کہنے لگا ’’ابن عمرؓ بھی خوب آدمی ہیں جو چیز معلوم نہ تھی اس سے صاف لاعلمی ظاہر کر دی‘‘۔عقبہ بن مسلم کا بیان ہے کہ ایک شخص نے آپ سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، فرمایا مجھ کو معلوم نہیں، تم میری پیٹ کو جہنم کا پل بنانا چاہتے ہو کہ تم یہ کہہ سکو کہ ابن عمرؓ نے مجھ کو ایسا فتویٰ دیا تھا۔ ابن عباسؓ کو آپ کا یہ طرز عمل تعجب انگیز معلوم ہوتا تھا فرمایا کرتے تھے کہ ’’مجھ کو ابن عمرﷺ پر تعجب آتا ہے کہ جس چیز میں ان کو ذرا بھی شک ہوتا ہے خاموش رہتے ہیں اور فتویٰ طلب کرنے والے کو لوٹا دیتے ہیں اگر کبھی فتویٰ دینے کے بعد غلطی معلوم ہوتی تو بلا پس و پیش پہلے فتویٰ سے رجوع کر لیتے اور مستفتی کو صحیح فتویٰ سے آگاہ کر دیتے۔ ایک مرتبہ عبدالرحمن بی ابی ہریرہؓ نے آبی مردار کے متعلق استفتاء کیا کہ اس کا کھانا جائز ہے یا نہیں آپ نے ناجائز بتایا بعد میں قرآن منگوا کر دیکھا تو یہ حکم ملا ’’احل لکم صید البحر و طعامہ‘‘ چنانچہ انہوں نے عبدالرحمن کے پاس کہلا بھیجا کہ ’’اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں‘‘ دوسرے عالم مفتیوں کو بھی اپنے رائے و قیاس سے فتویٰ دینے سے منع فرماتے تھے۔ حضرت جابرؓ بصرہ کے مفتی تھے۔ ابن عمرؓ ان سے ملے تو پہلی ہدایت یہ فرمائی کہ ’’تم بصرہ کے مفتی ہو، لوگ تم سے فتویٰ طلب کرتے ہیں کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کے بغیر فتویٰ نہ دیا کرو آپ کے نزدیک کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کے علاوہ کوئی تیسری قسم تھی ہی نہیں۔