جب حضرت عمرؓ کا وقت آخر ہوا اور ابن عمرؓ کو اپنی بہن ام المومنین حضرت حفصہؓ کی زبانی معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کسی کو اپنا جانشین نامزد کرنے کا خیال نہیں رکھتے جس سے ان کے خیال میں آنئدہ مشکلات پیش آنے کا خطرہ تھا تو ڈرتے ڈرتے باپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان کا بیان ہے کہ میں یہ جرات تو کر گیا مگر مارے خوف کے معلوم ہوتا تھا کہ پہاڑ اٹھا رہا ہوں۔
میں پہنچا تو پہلے حضرت عمرؓ لوگوں کے حالات پوچھتے رہے پھر میں نے جرأت کر ے عرض کی کہ میں لوگوں کہ چہ مگوئیاں گوش گزار کرنے حاضر ہوا ہوں ان کا خیال ہے کہ آپ کسی کو اپنا جانشین منتخب نہ فرمائیں گے تو فرض کیجئے کہ وہ چرواہا جو آپ کی بکریوں اور اونٹوں کو چراتا ہے اگر گلہ کو چھوڑ کر آپ کے پاس چلا جائے تو اس کے ریوڑ کا کیا حشر ہو گا؟ ایسی حالت میں انسانوں کی گلہ بانی کا فرض تو اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس معقول استدلال کو پسند کیا پھر کچھ سوچ کر بولے خود خدا اپنے گلہ کا نگہبان ہے، اگر میں کسی کو اپنا جانشین نامزد نہ کروں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ رسول اللہﷺ نے بھی نامزد نہیں فرمایا تھا اور اگر کر جاؤں تو بھی کوئی حرج نہیں کہ ابوبکرؓ نامزد کر گئے تھے، ابن عمرؓ کا بیان ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ اور ابوبکرؓ کا نام لیا تو میں سمجھ گیا کہ وہ آنحضرتﷺ کے اسوہ حسنہ پر کسی کو ترجیح نہ دیں گے اور کسی کو اپنا جانشین خود نہ بنائیں گے چنانچہ انہوں نے اپنے بعد اپنی جانشینی کا مسئلہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے سپرد کر دیا جس میں متعدد اکابر صحابہ شامل تھے۔