حضرت عمرؒ نے اپنے عہدِ خلافت میں معلمین اور قاضیوں کے لیے فراخی اور وسعت رزق کے دروازے کھول دیے لیکن اپنے لیے اور اپنی اولاد کے لیے رزق کے دروازے تنگ کر دیے۔ چنانچہ ایک دن ابن ابی ذکریا نے آپ سے کہا: ’’مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ اپنے ہر عامل کو تین سو دینار دیتے ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا: ہاں، انہوں نے کہا ’’امیرالمومنین! آپ دوسرے کے مقابلہ میں مال کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اپنے کرتے سے اپنا ہاتھ نکال کر فرمایا: ’’ابن ابی ذکریا اس کی مال فئے سے پرورش ہوئی ہے۔ اب میں اس کی طرف مال فئے کا ایک پیسہ بھی نہ لوٹاؤں گا۔‘‘ آپ کی نگاہ میں قاضی اور عامل کی تنخواہ کی یہ انتہائی حد نہ تھی بلکہ آپ نے اس سے بھی زیادہ تنخواہیں مقرر کی تھیں حتیٰ کہ بعض لوگوں کو آپ نے دس لاکھ سالانہ بھی تنخواہ دی۔