حضرت عمرو بن میمون حضرت عمرؓ کی شہادت کا قصہ ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کہا کہ دیکھ مجھ پر کتنا قرض ہے؟ اس کا حساب لگاؤ۔ انہوں نے حساب کر کے بتایا چھیاسی ہزار۔ حضرت عمرؓ نے کہا اگر عمرؓ کے خاندان کے مال سے یہ قرض ادا ہو جائے تو ان سے مال لے کر میرا یہ قرضہ ادا کر دینا۔ ورنہ (میری قوم) بنوعدی بن کعب سے مانگنا۔
اگر ان کے مال سے میرا تمام قرضہ اتر جائے تو ٹھیک ہے ورنہ (میرے قبیلہ) قریش سے مانگنا۔ ان کے بعد کسی اور سے نہ مانگنا اور میرا قرضہ ادا کر دینا۔ مزید فرمایا کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ کی خدمت میں جا کر سلام کرو اور ان سے کہو عمر بن خطابؓ اپنے دونوں ساتھیوں (حضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ) کے ساتھ (حجرہ مبارک میں) دفن ہونے کی اجازت مانگ رہا ہے۔ عمر بن خطاب کہنا اور اس کے ساتھ امیرالمومنین نہ کہنا۔ کیونکہ میں آج امیرالمومنین نہیں ہوں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں گئے تو دیکھا کہ وہ بیٹھی ہوئی رو رہی ہیں سلام کر کے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ عمر بن خطابؓ اپنے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا اللہ کی قسم! میں نے اس جگہ پر دفن ہونے کی اپنے لئے نیت کی ہوئی تھی۔ لیکن میں آج حضرت عمرؓ کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی (یعنی ان کو اجازت ہے) جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ واپس آئے تو حضرت عمرؓ نے کہا تم کیا جواب لائے ہو؟ حضرت عبداللہؓ نے کہا انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا (اس وقت) میرے نزدیک اس سے زیادہ کوئی اہم چیز نہیں ہے۔ پھر فرمایا جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کو اٹھا کر (حضرت عائشہؓ کے دروازے کے سامنے) لے جانا پھر ان سے دوبارہ اجازت طلب کرنا اور یوں کہنا کہ عمر بن خطابؓ (حجرہ میں دفن ہونے کی) اجازت مانگ رہے ہیں اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو مجھے اندر لے جانا (اور اس حجرہ میں دفن کر دینا) اور اگر اجازت نہ دیں تو مجھے واپس کر کے مسلمانوں عام قبرستان میں دفن کر دینا۔
جب حضرت عمرؓ کے جنازے کو اٹھایا گیا تو (سب کی چیخیں نکل گئیں اور) ایسے لگا کہ جیسے آج ہی مسلمانوں پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹا ہے۔ حضرت عائشہؓ کے گھر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے سلام کر کے عرض کیا کہ عمر بن خطابؓ (اندر دفن ہونے کی) اجازت طلب کر رہے ہیں۔
حضرت عائشہؓ نے اجازت دے دی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو حضورﷺ اور حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ دفن ہونے کا شرف عطا فرما دیا۔ جب حضرت عمرؓ کے انتقال کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے کہا آپ کسی کو اپنا خلیفہ مقرر کر دیں تو فرمایا میں (ان چھ آدمیوں) کی اس جماعت سے زیادہ کسی کو بھی امر خلافت کا حقدار نہیں پاتا ہوں کہ حضورﷺ کا اس حال میں انتقال ہوا تھا کہ وہ ان چھ سے راضی تھے۔
یہ جیسے بھی خلیفہ بنا لیں وہ میرے بعد خلیفہ ہو گا۔ پھر حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور حضرت سعد رضی اللہ عنہم اجمعین کے نام لئے۔ اگر خلافت حضرت سعدؓ کو ملے تو وہی اس کے مستحق ہیں ورنہ ان میں سے جسے بھی خلیفہ بنایا جائے وہ ان سے مدد حاصل کرتا رہے۔
کیونکہ میں نے ان کو (کوفہ کی خلافت سے) کسی کمزوری یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیا تھا اور حضرت عمرؓ نے (اپنے بیٹے) عبداللہ کے لئے یہ طے کیا کہ یہ چھ حضرات ان سے مشورہ لے سکتے ہیں لیکن ان کا خلافت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔
جب یہ چھ حضرات جمع ہوئے تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا اپنی رائے کو تین آدمیوں کے حوالے کر دو۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے اپنا اختیار حضرت علیؓ کو اور حضرت طلحہؓ نے حضرت عثمانؓ کو اور حضرت سعدؓ نے حضرت عبدالرحمنؓ کو دے دیا۔
جب ان تینوں کو اختیار مل گیا تو ان تینوں نے اکٹھے ہو کر مشورہ کیا اور حضرت عبدالرحمنؓ نے کہا کیا تم اس بات پر ہو کہ فیصلہ میرے حلواے کر دو ا ورمیں اللہ سے اس بات کا عہد کرتا ہوں کہ تم سب میں سے افضل آدمی کی اور مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ مفید شخص کی تلاش میں کمی نہیں کروں گا۔
دونوں حضرات نے کہا ہاں دونوں تیار ہیں۔ پھر حضرت عبدالرحمنؓ نے حضرت علیؓ سے تنہائی میں بات کی اور کہا کہ آپ کو حضورﷺ سے رشتہ داری کا شرف بھی حاصل ہے اور اسلام میں سبقت بھی۔ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر آپ کو خلیفہ بنا دیا جائے تو کیا آپ انصاف کریں گے؟
اور اگر میں حضرت عثمانؓ کو خلیفہ بنا دوں تو کیا آپ ان کی بات سنیں گے اور مانیں گے؟ حضرت علیؓ نے کہا جی ہاں۔ پھر حضرت عبدالرحمنؓ نے حضرت عثمانؓ سے تنہائی میں بات کی اور ان سے بھی یہی پوچھا۔ حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا جی ہاں۔ پھر حضرت عبدالرحمنؓ نے حضرت عثمانؓ سے کہا اے عثمان!آپ اپنا ہاتھ بڑھائیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور حضرت عبدالرحمن نے ان سے بیعت کی اور پھر حضرت علیؓ اور باقی لوگوں نے کی۔