مافیا اور گاڈ فادر کا نام تو سنا ہوگا.دوسری جنگ عظیم سے کچھ پہلے اٹلی میں سسلی کے مقام پر ایک شخص نے ایک تنظیم بنائی. اس تنظیم میں چور، ڈاکو، اغوہ کار اسمگلر اور گناہ کے دنیا سے تعلق رکھنے والے جمع ہوگئے.تنظیم کا نام “مافیا”اور لیڈر کا نام “گاڈ فادر” پڑ گیا.گاڈ فادر نے مافیا میں شامل افراد کے لیے ایک یونین بنائی. یہ یونین ہر ماہ پیسے جمع کرتی تھی.
پھر یہ پیسے ان لوگوں کے گھروں تک پہنچائے جاتے جو کسی مشن یا وارداد کے وقت زخمی یا ھلاک ہوجاتا.تنظیم اگے چل کر دوسرے شہروں تک وسیع ہوگیا.اس طرح شہروں سے ملکوں اس طرح یہ تنظیم دوسرے گاڈ فادر کے زمانے میں آہستہ اہستہ وسطی ایشیا تک پھیل گیا. تنظیم کے لوگوں نے ایک بینک بنایا اور صحت کے لیے ہسپتال بنائے. یہ تنظیم کا دائرہ کار اتنا وسیع ہوگیا کے ملکوں کے سربراہان ان سے منسلک ہوگئے. تنظیم کے رکن کو جو اگر نیویارک سے پاکستان کے شہر کراچی میں کوئی کام ہوتا تو یہاں موجود افراد سے فوراََ رابطہ کرکے کام کروا لیتا، مطلب آپس میں کنیکشن بہت مضبوط تھا. خیر ہمارا موضوع یہ نہیں لیکن مافیا کے پیچے کیا فلسفہ تھا جسے گاڈ فادر نے سسلی سے لیکر دنیا کے کونے کونے تک پہنچا دیا. اور لوگ اس سے آکر جڑ گئے”بی بی سی “کے رپورٹر نے گاڈ فادر سے ایک انٹرویو لیا جو دنیا میں بہت مشہور ہوا. جب رپورٹر نے اس سے پوچھا کے آپ نے یہ تنظیم کیوں بنائی.جس پھر گاڈ فادر نے وہ جملے کہے جو رہتی دنیا تک یاد رہینگے. گاڈ فادر نے کہا کے میں نے جب دیکھا کہ ڈاکٹروں، نرسوں، مزدوروں یہاں تک کے نائیوں کی یونین بنی ہوئی ہے تو میں نے سوچا کیوں نہ ہم بھی متحد ہوجائے،ہم بھی ایک یونین بنائے اس لیے میں نے ایک تنظیم بنائی جس کا نام مافیا رکھا.جب تک آپ میں اتحاد نہیں آپ کچھ نہیں کرسکتے،
میں دنیا کے نیک لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کے میں نے شر دنیا میں پھیلا دیا آج دنیا کے کونے کونے میں مافیا کے لوگ ہے، جو ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، لیکن دنیا میں خیر پھیلانے والے، خیر کا پیغام دینے والے ناکام ہیں، انکی ناکامی کی وجہ بے اتفاقی ہے، اگر وہ متحد ہو جائے، ایک ہو جائے، آپس میں لڑائی کی جگہ ایک دوسرے سے جڑ جائے تو وہ دن دور نہیں کے دنیا میں خیر ہی خیر ہوں،
دنیا کے کونے کونے سے امن سلامتی اور محبت کے پیغام آئے.اس نے کہا میں مافیا کو پھیلاتے پھیلاتے مر جاؤنگا، لیکن مرتے مرتے دنیا کو یہ پیغام دے جاؤنگا کہ اگر خیر پھیلانا ہے تو متحد ہوجاؤ، اگر منزل تک پہنچنا یے تو ایک دوسرے کا ہاتھ تام لو، ایک جُنڈ میں رہنا سیکھو.آج کے حالات پر غوروفکر کے بعد انسان اسی نتیجہ تک پہنچتا ہے، آج ہماری قوم کی سب سے بڑی بیماری بے اتفاقی،عدم برداشت اور اختلاف ہے،
آج ہم سب غلطیاں دوسرے کے خاطے میں ڈال دیتے ہیں، ہم کبھی دوسرے کو سننا ہی نہیں چاہتے، آج ہم مشورے کے بجائے فقط فیصلوں کے قائل ہے، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے؟ اگر امن،محبت، سلامتی سے رہنا ہے؟ یا ہمیں ملک اور قوم کو بچانا ہے تو ہمیں سب سے پہلے اپنے ناراض بھائی سے صلہ کرنا پڑیگا، ہمیں اس پڑوسی کو پر سے مننا ہوگا جس سے صرف اس بات پر ناراضگی تھی کے بچے آپس میں لڑے آج وہ بچے تو آپس میں پھر ساتھ کیلتے ہیں، لیکن دو مسلمان جن کی چاردیواری تو مشترک ہیں، لیکن سنت سلام بند ہے