سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ میں جب زیادہ اضطراب پیدا ہوا تو آپ غور و فکر کے بعد اس سے دست برداری کے لیے آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے فرمایا: ’’لوگو! میری خواہش اور عوام الناس کی رائے لیے بغیر مجھ پر خلافت کی گراں بار ذمہ داریاں ڈال دی گئی ہیں، اس لیے میری بیعت کا جو طوق آپ حضرات کی گردن پر ہے میں اسے خود اتار دیتا ہوں لہٰذا تم جسے چاہو اپنا خلیفہ منتخب کر لو۔‘‘
آپؒ نے یہ کلمات کہے ہی تھے کہ لوگوں نے شوربلند کر دیا کہ ہم نے آپ کو خلیفہ بنایا ہے اور ہم سب آپ کی خلافت سے راضی ہیں۔ آپ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر امور خلافت کو انجام دیں۔ جب آپ کو اس بات کا پورا یقین ہو گیا کہ کسی شخص کو آپ کی خلافت سے کوئی اختلاف نہیں اور ہر شخص میری خلافت کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے تو آپ نے اس بار گراں کو قبول فرما لیا۔ اور پھر مسلمانوں کے سامنے خطاب فرمایا جس میں انہیں تقویٰ اور یوم آخرت کے بارے میں تلقین فرمائی اور پھر خلیفہ اسلام کی اصلی حیثیت اور حقیقت کو واضح فرمایا جسے بعض اموی فرما رواؤں نے ملوکیت کے دبیز پردوں میں گم کر دیا تھا۔ چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور رسول اللہؐ پر درود و سلام کے بعد فرمایا: ’’اے لوگو! تمہارے نبیؐ کے بعد کوئی دوسرا رسول اور نبی آنے والا نہیں ہے اور جو کتاب اللہ تعالیٰ نے ان پر اتاری ہے اب اس کے بعد کوئی دوسری کتاب آنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو شے حلال کر دی ہے وہ قیامت تک کے لیے حلال ہے اور جو شے حرام کر دی ہے وہ قیامت تک کے لیے حرام ہے۔ میں اپنی طرف سے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں ہوں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے والا ہوں۔ خود اپنی طرف سے نئی بات پیدا کرنے والا نہیں ہوں بلکہ محض اتباع اور پیروی کرنے والا ہوں۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اس کی اطاعت کی جائے۔ میں تم میں سے کوئی ممتاز شخص نہیں ہوں بلکہ ایک معمولی فرد ہوں لیکن تمہارے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر زیادہ ذمہ داری ڈالی ہے۔‘‘