بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی کبھی حضرت عمرؒ اور سلیمان میں رنجش بھی ہو جاتی تھی۔ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت عمرؒ اور سلیمان گرمی کے موسم میں جہاد کے لیے نکلے۔ اتفاقاً ان دونوں کے غلام پانی پر لڑ پڑے اور حضرت عمرؒ کے غلاموں نے سلیمان کے غلاموں کو پیٹ ڈالا۔ سلیمان کے غلاموں نے اپنے آقا سے اس بارے میں شکایت کی۔ سلیمان نے حضرت عمرؒ سے کہا کہ آپ کے غلاموں نے میرے غلاموں کو پیٹا ہے۔ حضرت عمرؒ نے فرمایا، مجھے علم نہیں۔ سلیمان نے اس بارے میں کچھ تلخ کلامی سے کام لیا تو حضرت عمرؒ اس سے ناراض ہو کر کہنے لگے: ’’جب سے میں ہوشیار
ہوا ہوں میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘۔ پھر حضرت عمرؒ یہ کہتے ہوئے سلیمان کی مجلس سے اٹھ کھڑے ہوئے کہ ’’آپ کی مجلس سے خدا کی زمین وسیع ہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی آپؒ نے مصر جانے کا ارادہ اور تیاری کر لی۔ جب سلیمان کو آپؒ کے مصر جانے کا پتہ چلا تو انہیں ناگوار گزرا۔ بعد میں ان کی پھوپھی نے ان دونوں کی صلح کرا دی اور پھر پھوپھی کے کہنے پر حضرت عمرؒ سلیمان کے پاس گئے۔ سلیمان نے ان سے معذرت کر لی اور کہا: ’’ابو حفص! جب کبھی کوئی غم یا پریشانی لاحق ہوتی ہے تو مجھے آپ ہی یاد آتے ہیں۔‘‘ چنانچہ سیدنا عمرؒ نے مصر جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔