95ھ میں حجاج اور قرہ بن شریک عبسی گورنر مصر دونوں کا انتقال ہوا۔ ان کی موت ولید کے لیے سخت صدمے کا باعث بنی۔ کیونکہ ان کی موت نے تخت خلافت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس نے لوگوں کے سامنے اپنا بھرم رکھنے کے لیے لوگوں کو اکٹھا کیا۔ اور اس عورت کی طرح جس کا بچہ مر گیا ہو سر کھول کر منبر پر چڑھ گیا۔
اس نے پہلے تو لوگوں کو ان دونوں کی موت کی خبر دی۔ پھر کہا ’’بخدا! میں ان دونوں کی ایسی شفاعت کروں گا جو انہیں مفید اور نافع ہوگی‘‘۔ ولید جب اس قسم کی باتیں کر رہا تھا تو حضرت عمرؒ جو حاضرین میں موجود تھے۔ ان کی ان لایعنی باتوں کو سن کر مسکرا رہے تھے اور اپنے ساتھ بیٹھے لوگوں سے فرما رہے تھے ’’اس خبیث کو دیکھو، اللہ کرے اسے سرکار دو عالمؐ کی شفاعت نصیب نہ ہو اور اللہ اسے بھی ان دونوں خبیثوں کے ساتھ ملا دے‘‘۔ ولید جب یہ تعزیتی خطبہ دے کر منبر سے اترا تو لوگ اس سے تعزیت کے لیے آگے بڑھے کیونکہ اس کی سلطنت کے اہم ستون گر گئے تھے لیکن عمرؒ تعزیت کے لیے کھڑے نہیں ہوئے۔ ولید نے حضرت عمرؒ سے تعزیت کے لیے کھڑے نہ ہونے کا سبب پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ’’امیرالمومنین! حجاج ہمارا آدمی تھا لہٰذا اس کی تعزیت ہم سے کرنی چاہیے۔‘‘، ولید نے کہا ’’ٹھیک کہتے ہو۔‘‘