نئی دہلی(نیوز ڈیسک) مسلم آبادی کے حوالے سے ہندوستان میں یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ 2035ء تک ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ کر 92.5 کروڑ ہو جائے گی جبکہ ہندوؤں کی آبادی صرف 90.2 کروڑ تک ہی پہنچ سکے گی۔ 2040 ء تک ہندو تہوار منائے جانے بند ہو جائیں گے، بڑے پیمانے پر ہندوؤں اور غیر مسلموں کا قتل عام ہو گا اور 2050 ء کے آتے آتے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 189 کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی اور ہندوستان ایک مسلم ملک بن جائے گا۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے، اس حوالے سے ہندوستان کی معروف نیوز ویب سائٹ تہلکہ ڈاٹ کام کے قمر وحید نقوی نے ایک تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ حال میں ساکشی مہاراج اور سادھوی پراچی نے ہندوؤں سے چار چار بچے پیدا کرنے کی اپیل کی تھی۔ وشوا ہندو پریشد کے ایگزیکٹو صدر پروین توگڑیا بھی پیچھے نہیں رہے۔ اسی سال جنوری میں انہوں نے بریلی میں وشوا ہندو پریشد کے 50 ویں یوم تاسیس کی تقریب میں کہا تھا کہ ’’چار بچوں کی بات کرنے پر اتنا ہنگامہ کیوں کھڑا ہو رہا ہے؟ جب مسلمان زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں، تو لوگ کیوں چپ رہتے ہیں۔ مسلمان چار شادیاں اور 10 بچے پیدا کرتے ہیں، اگر دو بچوں کی بات کرنی ہے تو قانون بنایا جائے، جو لوگ زیادہ بچے پیدا کر رہے ہیں ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔‘‘ کیا اس بات میں کوئی حقیقت بھی ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر آبادی میں اضافہ کر رہے ہیں، تا کہ ایک دن وہ ہندوستان کی اکثریت بن جائیں؟ کیا واقعی تمام مسلمان چار چار شادیاں کرتے ہیں؟ کیا مسلم عورتیں دس دس بچے پیدا کرتی ہیں؟ کیا مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کی یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ وہ زیادہ شادیاں کرتے ہیں؟ کیا تمام مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کو بالکل نہیں اپناتے اور اسے اسلام مخالف مانتے ہیں؟ کیا ایک دن واقعی مسلمانوں کی آبادی اتنی ہو جائے گی کہ وہ آبادی کے معاملے میں ہندوؤں سے زیادہ ہو جائیں گے اور کیا ہندوستان کبھی مسلم ملک بن سکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اشتعال انگیز شگوفہ صرف ہندوستان میں ہی نہیں چھوڑا جارہا ہے، بلکہ افواہ مشینری تو یورپ کے لوگوں کو بھی خوفزدہ کرنے میں مصروف ہے کہ جس طرح سے مسلمانوں کی آبادی پوری دنیا میں بڑھ رہی ہے، اس کی وجہ ایک دن یورپ ختم ہو جائے گا اور اس کی جگہ ’یوربیا‘ بن جائے گا؟ لیکن ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا ان سوالات میں کچھ حقیقت بھی ہے؟ پہلے ہندوستان کی جانب آئیں تو یہاں مردم شماری 2011 ءکی رپورٹ سرکاری طور پر اب تک شایع نہیں کی گئی ہے، لیکن لیک ہو کر یہ رپورٹ کچھ جگہوں پر شایع ہوچکی ہے، ابھی حال میں ہی یہ ‘لیک’ رپورٹ دوبارہ شایع ہوئی ہے۔ تو 2011 کی مردم شماری کی ‘لیک’ رپورٹ کے مطابق ملک کی آبادی میں مسلمان 13.4 فیصد سے بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گئے ہیں اور پہلی مرتبہ ہندوؤں کا فیصد 80 سے نیچے چلے جانے کا امکان ہے۔ 1961 میں ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 10.7 فیصد تھی جبکہ ہندو 83.4 فیصد۔ 2001 ءمیں مسلمان بڑھ کر 13.4 فیصد ہو گئے اور ہندو کم ہو کر 80.5 فیصد ہی رہ گئے۔ اس لیے ‘لیک’ رپورٹ کے مطابق اگر مسلمان بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گئے ہیں تو ہندوؤں کی آبادی ضرور گھٹ کر 80 فیصد سے نیچے جا سکتی ہے. انہی اعداد و شمار کے حوالے سے ہندوتوا بریگیڈ کے کارندے ہندوؤں کو ڈرانے، اکسانے اور مسلمانوں کے خلاف ماحول تیار کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن یہ محض آدھا سچ ہے۔ اس حقیقت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافہ کی شرح میں گزشتہ دس سال میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ 1991ء سے 2001ء کے 10 سالوں کے دوران مسلمانوں کی آبادی میں 29 فیصد اضافہ ہوا، جبکہ 2001ء سے 2011ء کی دہائی میں یہ اضافہ صرف 24 فیصد رہا۔ اگرچہ یہ 18 فیصد کے قومی اوسط سے اب بھی کافی زیادہ ہے۔ مسلم آبادی کے اعداد و شمار کا قریب سے تجزیہ کریں تو واضح ہوگا کہ مسلمانوں میں چھوٹے خاندان کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور جیسے جیسے مسلمانوں میں تعلیم میں اضافہ ہوگا اور جیسے جیسے ان کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی جائے گی، اسی کے ساتھ ساتھ ان کی آبادی میں اضافہ کی رفتار سست پڑتی جائے گی۔ ہندوستانی حکومت ہند کے قومی خاندان صحت سروے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو انتہاپسند ہندو تنظیموں کی جانب سے کیے جا رہے پروپیگنڈے کا پول کھل جاتا ہے۔پہلا قومی خاندان صحت سروے 1991-92ء میں، دوسرا 1998-99ء میں اور تیسرا 2005-06ء میں ہوا تھا، یعنی ان پندرہ سالوں میں تولیدی شرح، خاندانی منصوبہ بندی اور اسقاطِ حمل کے رجحان کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ 1991-92ء کے دوران ہندو خواتین کی تولیدی شرح 3.3 اور مسلمانوں کی 4.41 تھی۔ 1998-99 ءمیں ہندو خواتین یہ شرح 2.78 اور مسلمانوں میں 3.59 درج کی گئی، 2005-06 میں ہندوؤں میں 2.59 جبکہ مسلمانوں میں 3.4 رہ گئی، جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کی نسل شرح میں ان 15 سالوں کےد وران مسلسل کمی آئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلمان خواتین، ہندو خواتین کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ صرف ایک ہی بچے کو جنم دے رہی ہیں، ویسے اوسط تو ایک سے بھی کم کا یعنی 0.81 بچے کا ہی بنتا ہے۔ تو یہ پروپیگنڈا بے بنیاد ہے کہ مسلمان عورتیں دس دس بچے پیدا کرتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ اوسطاً وہ چار یا کہیں کہ ساڑھے تین سے بھی کم بچے پیدا کرتی ہیں۔ ان کی تولیدی شرح 2005-06 میں 3.4 تھی جو گزشتہ رجحان کو دیکھتے ہوئے اس وقت اور بھی کم ہو گئی ہو گی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے دیگر طبقات کی خواتین کی طرح مسلمان عورتوں میں بھی خاندانی منصوبہ بندی کو اپنانے کے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ درست ہے کہ مسلم خواتین اب خاندانی منصوبہ بندی کے معاملے میں ہندو خواتین کے مقابلے کافی پیچھے ہیں۔ گزشتہ 30 برسوں کے دوران دنیا بھر کے مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے تصورات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے۔ اس معاملے میں بنگلہ دیش اور ایران نے تو کمال ہی کر دکھایا ہے۔ ایران میں پیدائش شرح 8 سے گر کر 2 تک پہنچ گئی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اگر پیدائش کی شرح میں کمی کا سلسلہ اسی جاری رہا تو وہاں آبادی میں کمی آجائے گی۔ پچھلی تین دہائیوں میں 49 مسلم اکثریتی ممالک میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں 41 فیصد کمی آئی ہے، جبکہ اس مدت میں پوری دنیا میں تولیدی شرح میں اوسطاً 33 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ تقریباً 22 مسلم اکثریتی ممالک میں گزشتہ تین دہائیوں میں پیدائش کی شرح میں 50 فیصد یا اس سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔ ان میں سے 10 ممالک میں یہ کمی 60 فیصد یا اس سے زیادہ رہی اور ایران و مالدیپ میں تو یہ 70 فیصد سے بھی زیادہ کم ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کہ مسلم ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی اور آبادی کو کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ناصرف محسوس کی گئی، بلکہ اس سمت میں وسیع مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ اگرچہ یہ بھی سچ ہے کہ کچھ مسلم ممالک میں اور کچھ مسلمان اب بھی اس حوالے سے روایتی تصور کو اپنائے ہوئے ہیں۔ لیکن صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں آبادی سے متعلق جائزوں کا ایک ہی نتیجہ ہے کہ امیر ممالک اور معاشرے کے امیر طبقات میں پیدائش کی شرح کافی کم رہتی ہے اور جو ملک یا خاندان جتنا زیادہ غریب ہوتا ہے، ان میں پیدائش کی شرح اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اس کے پیچھے ایک اقتصادی وجہ بھی ہے کہ خاندان میں جتنے زیادہ لوگ ہوں گے، اتنے زیادہ كمانےوالے ہوں گے۔ آبادی کا بڑھنا فکر کی بات ہے۔ اس پر روک لگانی چاہیے۔ لیکن اس کا حل وہ نہیں، جو آر ایس ایس، پروین توگڑیا اور سنگھ پریوار کے لوگ تجویز کرتے ہیں۔ حل یہ ہے کہ حکومت ترقی کی روشنی کو پسماندہ علاقوں تک جلد سے جلد پہنچائے، تعلیم کی سہولت میں اضافہ کرے، خاندانی منصوبہ بندی کے پروگراموں کے لیے مہم شروع کرے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں