اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان پیپلز پارٹی نے مالی سال 2017-18کا 5800ارب روپے کا شیڈو بجٹ پیش کر تے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ تنخواہوں اور پنشن میں 25فیصد اضافہ، کم سے کم تنخواہ 18ہزار روپے مقرر کی جائے ،شیڈو بجٹ میں 825ارب روپے محصولات کی مد سے حاصل ہوں گے اور 40لاکھ مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا،ایف بی آر کی تشکیل نوکا منصوبہ بھی پیش کیا گیا ہے ،
شیڈو بجٹ میں ہر سال 47ارب روپے صحت کے شعبے کیلئے مختص کئے گئے ہیں، خواجہ سراؤں کو بھی بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت سماجی تحفظ دینے کیلئے علیحدہ سے فنڈ مختص کیا جائے، نواز حکومت کے دور میں قرضوں میں 35فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔منگل کو یہاں زرداری ہاؤس اسلام آباد میں سابق وزیر خزانہ اور چیئرمین سینیٹ کمیٹی برائے خزانہ سینیٹر سلیم مانڈوی والانے ایک پریس کانفرنس میں شیڈو بجٹ پیش کیا اس موقع پر سینیٹر فرحت اللہ بابر، سابق رکن قومی اسمبلی چوہدری منظور، سینیٹرعثمان سیف اللہ خان، پنجاب کے سابق وزیر خزانہ تنویراشرف کائرہ بھی موجود تھے۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے صدر آصف علی زرداری نے پہلے ہی یہ ہدایات جاری کر دی ہیں کہ 2018ء کے عام انتخابات کے لئے منشور میں غربت کے خاتمے کے لئے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔ شیڈو بجٹ 5.8کھرب روپے کا ہے جس میں 825ارب روپے محصولات کی مد سے حاصل ہوں گے اور 40لاکھ مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔ شیڈو بجٹ میں ایف بی آر کی تشکیل نوکا منصوبہ بھی شامل ہے تاکہ محصولات اور وسائل کوسماجی بہتری اور غذائی تحفظ کے لئے استعمال کیا جائے۔ اس شیڈو بجٹ میں ہر سال 47ارب روپے صحت کے شعبے کے لئے مختص کئے گئے ہیں اور صحت کی انشورنس پہلے مرحلے میں اسلام آباد میں متعارف کرائی جائے گی
جسے بعد میں صوبوں میں بھی متعارف کیا جائے گا۔ صوبائی بورڈ آف ریونیو سیلز ٹیکس، سروس ٹیکس اور صوبائی ایکسائز اکٹھا کرے گا۔ وفاقی ایکسائز ڈیوٹی بھی صوبائی بورڈ آف ریونیو اکٹھا کرے گا جسے بعد میں پہلے سے طے شدہ شرائط پر وفاقی حکومت کو منتقل کیا جائے گا۔ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ تمام وفاقی اور صوبائی ٹیکسوں کے ادارے، نادرا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام معلومات ایک دوسرے سے شیئرکریں گے تاکہ ٹیکس کی وصولی میں خلا کو پُر کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کی پرانی خرابی یہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتا جا رہا ہے اور غریب غریب تر ہوتا جا رہاہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ سرکاری اخراجات جن سے صرف امیروں کو فائدہ ہوتا ہے ختم کر دئیے جائیں گے اور وہ رقم سب سے غریب ترین طبقات کے لئے دی جائے گی۔ پٹرولیم پر پانچ فیصد ایکسائز ڈیوٹی بھی ختم کر دی جائے گی تاکہ غریبوں کے لئے سفری اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔ پارٹی نے یہ بھی عہد کیا کہ سی پیک کا مغربی روٹ ترجیحی بنیادوں پر بنایا جائے گا جس پر مئی 2015ء میں وزیراعظم ہاؤس میں منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں سب نے اتفاق کیا تھا
لیکن حکومت اسے بھول گئی۔ چین سے تجارت کے لئے خاص تربیتی پروگرام ترتیب دئیے جائیں گے۔ سینیٹر مانڈوی والا نے مزید کہا کہ سی پیک پاکستان پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے آخری دنوں میں شروع کیا گیا تھا اور اس کے لئے گوادر کی بندرگاہ کو فروری 2013ء میں سنگاپور سے چین کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان، کے پی کے اور قبائلی علاقوں کے غیرترقی یافتہ علاقوں کے عوام کی محرومی ختم کرنے کے لئے سی پیک کا مغربی روٹ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری حکومت کی جانب سے مغربی روٹ کو نظرانداز کرنے پر بہت زیادہ تشویش میں ہیں کیونکہ یہ چھوٹے صوبوں کی امیدوں اور خواہشات کو نظرانداز کرنا ہے اور سی پیک منصوبے میں شفافیت کے خلاف ہے۔ سینیٹر مانڈوی والا نے کہا کہ جب وزیراعظم اوبور (OBOR) کے 1500 مندوبین سے خطاب کرتے ہوئے امن اور تنازعات کے حل کے لئے ڈائیلاگ کی ضرورت پر بات کر رہے تھے
اسی وقت منصوبہ بندی کے وزیر پاکستان میں میڈیا کی جانب سے مغربی روٹ پر اٹھائے گئے سوالات کو غلط قرار دے رہے تھے۔ سینیٹر مانڈوی والا نے اس بات کی مذمت کی کہ قومی صنعتی پالیسی 2011ء جو پاکستان کو دنیا کے لئے ایک دکان کی بجائے فیکٹری میں تبدیل کرنے کے لئے بنائی گئی تھی پر نواز حکومت نے عملدرآمد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف ایک تاجر ہے اور انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ معاشی پالیسیوں کا تسلسل جاری رہنا چاہیے اور اسے سیاست کی نظر نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قومی صنعتی پالیسی 2011ء کو بحال کیا جائے گا۔
سابقہ قرضے واپس کرنے کے لئے مزید قرضے لینے کے چکر سے نکلنے کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی نے تجویز دی ہے کہ نجی سیکٹر کو انفراسٹریکچر ترقی میں شامل کیا جائے۔ سینیٹر مانڈوی والا نے کہا کہ نواز حکومت نے قوم کو ایک دفع پھر قرضوں کے بوجھ تلے کچل کر رکھ دیا ہے اور سماجی شعبے اور ترقی کے لئے کوئی رقم باقی نہیں رہتی۔ قرضوں کا بوجھ 12.7کھرب روپے ہوگیا ہے جو 2013ء میں صرف 9.5کھرب روپے تھا جبکہ بیرونی قرضے 61ارب ڈالر سے بڑھ کر نواز حکومت میں 73ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔ نواز حکومت کے دور میں قرضوں میں 35فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔