عینیہ بن حصین رضی اللہ عنہ مدینہ آئے اور اپنے بھتیجے حر بن قیس بن حصین کے ہاں قیام کیا۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقرب لوگوں میں سے تھے۔ عینیہ نے اپنے بھتیجے سے کہا کہ اگر حاکم وقت سے ملاقات کی کوئی صورت ہو تو آپ میرے لئے ان سے ملنے کی اجازت طلب کریں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو اجازت دے دی۔ جب وہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو کہنے لگے ’’اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ! تو ہمارے درمیان انصاف نہیں کرتا ہے اور ہمیں چند ٹکڑوں کے سوا کچھ نہیں دیتا ہے۔ (یہ سنتے ہی) حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ غضبناک ہو گئے اور اس کو سزا دینے کا ارادہ کر لیا۔ حر بن قیس نے آگے بڑھ کر عرض کیا ’’اے امیرالمومنین! یہ شخص جاہل ہے اور جاہل کے متعلق قرآن میں آیا ہے کہ اس سے درگزر کرو۔ آپ رضی اللہ عنہ اس کی بات کا خیال نہ کیجئے۔ قرآن میں آیا ہے ’’حذ الفعو و امر بالعرف و اعرض عن الجٰھلین (سورہ الاعراف199:)‘‘ ترجمہ ’’آپ درگزر کیجئے اور نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے اعراض کریں‘‘۔حر بن قیس کہتے ہیں کہ خدا گواہ ہے جب اس نے یہ آیت تلاوت کی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک قدم آگے نہیں بڑھایا۔ آپ رضی اللہ عنہ کتاب اللہ ک آگے رک جانے والے تھے۔