عربی زبان کے مشہور ادیب و ماہر ’’اصمعی‘‘ کے حافظہ کا اندازہ آپ اس واقعہ سے لگا سکتے ہیں جو علامہ ابن خلکان نے ’’وفیات الأعیان‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ امیر حسن ابن سہیل نے ادیبوں کو جمع کیا جن میں اصمعی، ابوعبیدہ اور نصر بن علی وغیرہ شامل تھے۔
ادیبوں کے ساتھ گفتگو شروع کرنے سے قبل، امیر نے مختلف ضروریات کے لئے دی گئی پچاس درخواستوں پر اپنی صوابدید کے مطابق احکامات لکھ کر جاری کئے، پھر ادیبوں سے گفتگو شروع کی، محدثین کا تذکرہ چلا تو ابوعبیدہ، اصمعی پر تعریض کرتے ہوئے کہنے لگے کہ جناب! اس مجلس میں بھی موجود کچھ لوگ اسلاف جیسے حافظہ کا دعویٰ کر کے کہتے ہیں کہ ’’ایک بار کوئی کتاب پڑھنے کے بعد دوبارہ اس کے دیکھنے کی انہیں ضرورت ہی نہیں پڑتی اور کوئی بات ایک مرتبہ ان کے ذہن میں داخل ہو جائے تو پھر کبھی نہیں نکلتی‘‘۔ اصمعی نے کہا ’’جناب! ابوعبیدہ مجھ پر تعریض کر رہے ہیں لیکن واقعہ وہی ہے جیسا انہوں نے بیان کیا۔ ابھی آپ نے پچاس درخواستوں پر مختلف احکامات لکھے، قریب ہونے کی وجہ سے میں دیکھ رہا تھا اگر آپ چاہیں تو وہ تمام درخواستیں منگوا لیں، ہر درخواست میں جو کچھ لکھا ہو گا میں تمام زبانی سنائے دیتا ہوں۔ چنانچہ اصمعی نے وہ تمام درخواستیں اور امیر کی طرف سے ان پر لکھے گئے احکامات سنانا شروع کئے جب چالیس سے کچھ اوپر پہنچے تو نصر بن علی نے اصمعی کو منع کیا کہ کہیں ’’نظربد لگ جائے گی‘‘ تب اصمعی رک گئے۔