ایک آدمی حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس فریاد لے کر آیا، اس کی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح رواں تھے، اپنے ظلم پر دادرسی کے لئے کہنے لگا۔ اے امیرالمومنین! میں ظلم سے بچنے کے لئے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے غصہ ظاہر ہوا، فرمایا کہ تم مطمئن رہو، تجھے پناہ مل گئی ہے یعنی تو نے ایسے آدمی سے التجاء کی ہے جو تیری حفاظت کرے گا۔
اس آدمی نے روتے ہوئے کہا کہ میرا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے دوڑ کا مقابلہ ہوا میں دوڑ میں اس پر غالب آیا تو وہ مجھے کوڑے سے مارنے لگا اور مجھے کہنے لگا کہ میں ابن الاکرمین (دو معزز آدمیوں کابیٹا) ہوں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو حاضر ہونے کا حک م دیا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ حاضر ہوں چنانچہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آئے ان کے پیچھے پیچھے ان کے بیٹے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پکار کر کہا کہ مصری شخص کہاں ہے؟ وہ آدمی کانپتے ہوئے آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ کوڑا لو اور اس کو مارو۔ اس آدمی نے وہ کوڑا پکڑا، اس کو گھمایا پھر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بیٹے کی کمر پر مارنا شروع کیا۔ جس کو کھجور کے ایک تنے کے ساتھ باندھا گیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس مصری آدمی کے برابر کھڑے اس کو فرما رہے تھے کہ مارو اس ابن الاکرمین کو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا گواہ ہے، اس آدمی نے اس کو مارا اور ہم اس کے مارنے کو پسند کر رہے تھے، وہ مسلسل مارتا رہا یہاں تک ہم نے تمنا کی اب یہ اس کو چھوڑ دے۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب عمرو کے سر پر بھی کوڑے لگاؤ۔ وہ آدمی کہنے لگا کہ اے امیر المومنین! مجھے صرف اس کے بیٹے نے مارا تھا اور میں نے اس سے بدلہ لے لیلا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھا اور فرمایا ’’تم نے کب سے لوگوں کو غلام بنا لیا ہے، ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا؟‘‘ حضرت عمرو رضی اللہ عنہ نے سر جھکاتے ہوئے عرض کیا، اے امیر المومنین! مجھے تو اس واقعہ کی خبر بھی نہیں تھی اور نہ یہ میرے پاس آیا۔