حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں بھی اسی طرح کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ دمشق میں ایک آدمی اپنا گدھا سواری کے لئے اجرت پر دے کر گزر بسر کرتا تھا، ایک دن ایک شخص نے آ کر کہا کہ فلاں جگہ جانا ہے، مجھے لے چلو، اس نے اس شخص کو بٹھا کر چلنا شروع کیا تو وہ ایک ویران راستہ سے جانے کے لئے کہنے لگا، گدھے کے مالک نے کہا کہ یہ راستہ مجھے نہیں معلوم،
وہ شخص کہنے لگا ’’مجھے معلوم ہے، یہ راستہ قریب پڑتا ہے‘‘ جب اس راستے سے کچھ آگے بڑھے تو ایک خطرناک وادی آئی، وہ شخص گدھے سے اترا اور خنجر نکال کر سواری کے مالک کو اس نے قتل کرنے کا ارادہ کیا، اس بیچارے نے اللہ کا واسطہ دے کر کہا کہ گدھا اور اس پر جو کچھ ہے سب لے لو مجھے چھوڑ دو لیکن وہ نہیں مانا، کہا کہ وہ تو لینا ہی ہے مگر تم کو بھی قتل کروں گا، اس نے دو رکعت نماز پڑھنے کی مہلت مانگی، کہا ’’جلدی پڑھو‘‘ سواری کے مالک کا بیان ہے کہ میں نماز کیلئے کھڑا ہوا تو خوف کی وجہ سے جو کچھ یاد تھا سب بھول گیا، قرآن کا ایک حرف بھی حافظہ میں نہیں رہا، اچانک میری زبان پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت جاری فرمائی ’’کوئی ہے جو پریشان حال لوگوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کی تکلیف کو دور کرتا ہے‘‘ اتنے میں ایک شہسوار آیا اس کے ہاتھ میں نیزہ تھا، وہ نیزہ اس نے اس ڈاکو کے سینے میں دے مارا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا، میں نے شہسوار سے اس کا تعارف پوچھا تو وہ کہنے لگا، میں اسی ذات کا بندہ ہوں جو پریشان حال کی دعا سنتا اور مصیبت دور کرتا ہے‘‘۔