بہلول دانا فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ گلی سے گزر رہا تھا کہ میں نے کچھ ایسے بچوں کو دیکھا جو کھیل رہے تھے، ان کے قریب ہی کچھ اور بچے موجود تھے مگر ایک بچہ الگ بیٹھا ہوا برابر مغموم اور اداس نظر آ رہاتھا۔ میرے دل میں بات آئی کہ میں اس بچہ کا دل بہلاؤں پتہ نہیں کیوں اداس اور مغموم ہے۔
چنانچہ میں نے اسے پوچھا: بیٹا! تمہیں کیا ہوا؟ تم ان کے ساتھ کیوں نہیں کھیلتے ہو؟ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا چچا جان! (افحسبتم انما خلقنکم عبثا) (النور115) یعنی کیا آپ یہ گمان رکھتے ہیں کہ ہمی بے فائدہ پیدا کیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں بچے کی یہ بات سن کر بڑا حیران ہوا۔ چنانچہ میں نے اسے پوچھا بیٹا! تم ابھی چھوٹے ہو تمہیں ابھی سے اتنا فکر مند ہونے کی کیاضرورت ہے؟ وہ کہنے لگا چچا جان! میں اپنے گھرمیں دیکھتا ہوں کہ جب میری امی نے آگ جلانی ہوتی ہے، تو وہ چولہے کے اندر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں پہلے ڈالتی ہے اسی طرح وہ آگ سلگاتی ہے اورجب آگ بھڑک اٹھتی ہے تو پھر بڑی لکڑیوں کی باری آتی ہے، چچا جان! جب میں یہ منظر دیکھتا ہوں تومجھے قیامت کا دن یاد آ جاتا ہے، ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ سلگانے کے لیے چھوٹے چھوٹے بچوں کو پہلے ڈالیں اورجب آگ بھڑک جائے تو بڑے انسانوں کی باری بعد میں آئے۔ اللہ اکبر۔نوٹ: واقعہ امام زین العابدین کے بچپن کا ہے۔